اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے بینکاری کمپنیوں کو رپورٹنگ رولز 2010 میں پیش کردہ ترمیم کے مطابق بینکوں سے اکاؤنٹ ہولڈرز کے پانچ سالہ ریکارڈ مرتب کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ ایف بی آر کی تجویز کردہ ترامیم کے مسودے کے مطابق کھاتہ داروں کو اپنی رقوم جمع کرانے کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ہوں گی۔ جو اکاؤنٹ ہولڈر ہر ماہ دس ملین یا اس سے زیادہ رقم جمع کراتے ہیں
ان کو اس بارے میں اضافی معلومات دینا ہوں گی۔ مجوزہ قواعد کے مطابق ماہانہ کریڈٹ کارڈ کے بل 20000 روپے یا اس سے زیادہ کے ادائیگی والے افراد کو بھی معلومات فراہم کرنا ہوں گی۔ ایسے اکاؤنٹ ہولڈر جو ہر ماہ دس لاکھ یا اس سے زیادہ رقم نکالتے ہیں معلومات دینے کے پابند ہوں گے۔ کھاتہ داروں کو ماہانہ بنیادوں پر معلومات فراہم کرنا ہوں گی۔ ایف بی آر بینکاری دفاتر، اکاؤنٹس، دستاویزات اور کمپیوٹرز تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ایف بی آر نے بینکوں سے مزید کہا ہے کہ ترمیم شدہ قانون کے نفاذ کے 30 دن کے اندر اندر کسی افسر کو نامزد کریں، دوسری صورت میں بینکنگ کمپنی کا صدر یا پرنسپل آفیسر بینکنگ افسر سمجھا جائے گا، جو ایف بی آر کو متعلقہ معلومات فراہم کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل بینکوں نے ایف بی آر کو بے نامی اکاؤنٹس کی تفصیلات دینے سے معذرت کرلی تھی،225ارب کے اثاثے ضبط کرنا خواب بن گیا۔بینکوں کا کہنا تھا کہ کھاتے داروں کی معلومات آپ کو نہیں دے سکتے۔وزیراعظم عمران خان نے ایک سال قبل اعلان کیا تھا کہ ٹیکس سے بچنے کیلئے بنائے گئے بے نامی اکاؤنٹس اور اثاثے ظاہر کریں، مقررہ مدت کے بعد کسی کو موقع نہیں ملے گا۔ وزیراعظم کے اعلان کے باجود تاحال اربوں روپے مالیت کی بے نامی جائیدادیں، شیئرز، قیمتی گاڑیاں، گھریلو و کمرشل پراپرٹیز قومی خزانے میں جمع نہ کرائی جا سکی ہیں۔کمرشل بینکوں نے ایف بی آر کو
اپنے کھاتہ داروں کی تفصیلات دینے سے صاف انکار کردیا۔ دوسری جانب بے نامی جائیدادوں کے مالکوں نے بھی عدالتوں سے رجوع کرلیا۔ سندھ ہائیکورٹ میں 16 رٹ پٹیشنز میں اینٹی بے نامی زونز کی اتھارٹی کو چیلنج کردیا گیا۔دستاویز کے مطابق اب تک 225 ارب کے بے نامی اثاثوں اور جائیدادوں کا سراغ ملا ہے، اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں اینٹی بے نامی زونز نے ایک سال میں 22.8 ارب مالیت کے 51 ریفرنسز دائر کئے،
31 ارب سے زیادہ مالیت کے 146 بے نامی اثاثوں کے کیسز زیر تفتیش ہیں۔رپورٹ کے مطابق شوگر انکوائری رپورٹ میں بھی 100 ارب کی بے نامی ٹرانزیکشنز کا تخمینہ لگایا گیا ہے، پنجاب کے 13 اضلاع میں 72 ارب سے زیادہ کے بے نامی اثاثوں کا بھی سراغ مل چکا ہے۔دستاویز کے مطابق کیسز کی تکمیل کیلئے 3 اینٹی بے نامی زونز کے پاس پورا عملہ ہے نہ مستقل عمارت۔ حکام کے مطابق اینٹی بے نامی زونز کو عدالتی مقدمات
کیلئے 2 لاکھ سے زیادہ فیس والا وکیل کرنے کی بھی اجازت نہیں۔دستاویز کے مطابق ایف بی آر نے 4 نئے زونز بنانے کی تجویز دی ہے جن میں حیدرآباد، ملتان، فیصل آباد اور پشاور شامل ہیں۔اس ضمن میں ماہر ٹیکس امور اکرام الحق نے بتایا کہ ایف بی آر قانون کے تحت کھاتے داروں کی تفصیل نہ دینے والے کیخلاف کارروائی کرسکتا ہے، 70 سال بعد پاکستان میں ٹیکس ڈاکیومنٹیشن ہورہی ہے، 2017 سے پہلے لوگ ٹیکس بچانے کیلئے چوکیداروں کے نام پر اپنی جائیدادیں رکھتے تھے، اگر اب ایکشن نہیں ہوا تو کبھی نہیں ہوسکے گا۔