ایک سال میں معیشت بہتر سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے تحریک اںصاف کی حکومت کو تجاویز دیدیں

22  جون‬‮  2020

اسلام آباد (این این آئی)پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے وفاقی بجٹ نے ملکی معیشت ٹھیک کرنے کے لئے حکومت کو تجاویز دے دیں اور سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیکس پر نظر ثانی ، پی ایس ڈی پی بڑھائی اور پالیسی ریٹ کم کیاجائے ،حکومت درست اقدامات کرے تو اگلے سال معیشت بہتر ہوسکتی ہے ۔

کورونا حالات کے ساتھ گزشتہ دو سال کے دوران پی ٹی آئی حکومت کی معاشی کارکردگی کا بھی جائزہ لینا ہوگا ،پالیسی ریٹ جب تک ٹھیک نہیں ہوگا تو حکومتی فائنانسز خراب ہوتے رہیں گے ،پاکستان مسلم لیگ (ن) کو برا بھلا کہیں ، حکومت اپنا کام بھی تو کرے، ٹیکس ہدف پورا کرے ،امید ہے وزیر خزانہ اپنی بجٹ تقریر سمیٹتے ہوئے سرکاری گریڈ ایک سے 16 تک کے ملازمین کی تنخواہیں بڑھائیں گے۔ پیر کو اپنے بیان میں انہوں نے کہاکہ پالیسی ریٹ کم کریں تاکہ قرض ادائیگی میں کمی اور حکومتی آمدن کے مسائل ٹھیک ہوں۔انہوں نے کہاکہ قومی زندگی کا یہ ایک بہت مشکل مرحلہ ہے، کورونا حکومت کی غلطی نہیں لیکن اس سے بہتر طورپر نمٹنا حکومت کی ذمہ داری ہے ،حکومت درست اقدامات کرے تو اگلے سال معیشت بہتر ہوسکتی ہے ،ضروری ہے کہ گورنرسٹیٹ بنک پالیسی ریٹ میں کمی کریں ۔ انہوںنے کہاکہ وزیر خزانہ پی ایس ڈی پی بڑھائیں تاکہ معیشت کا پہیہ چلے ورنہ حالات مزید خراب ہوجائیں گے ۔ انہوںنے کہاکہ کورونا کی وجہ سے بیرونی محاصل میں تبدیلی نہیں ہوئی ۔ انہوں نے کہاکہ لوکل فائنانسز اور مینجمنٹ خراب ہوئی ہے۔

کورونا کا اس میں عمل دخل نہیں ،مسائل کی وجہ پی ٹی آئی کا پالیسی ریٹ میں اضافہ، روپے کی قدر میں کمی اور غلط مینجمنٹ ہے ،معیشت انتہائی برے حالات میں ہے، کورونا کی وجہ سے خاص طورپر پوری دنیا میں معیشت متاثر ہوئی ہے ،کورونا حالات کے ساتھ گزشتہ دو سال کے دوران پی ٹی آئی حکومت کی معاشی کارکردگی کا بھی جائزہ لینا ہوگا ۔ انہوں نے کہاکہ مئی 2018 میں مسلم لیگ (ن) نے حکومت چھوڑی توپانچ سال میں ٹیکس آمدن میں ہر سال 14.5 فیصد اضافہ کیا ۔

انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ (ن) 3840 ارب روپے ٹیکس وصولی چھوڑ کر گئی تھی ، اسی رفتار پر موجودہ حکومت چلتی توپہلے سال 4400 ارب ہوجانا چاہئے تھا ،وزیر خزانہ اسد عمر نے نئے ٹیکس لگائے، ہمارے دور کی ٹیکس مراعات بھی ختم کیں لیکن پھر بھی ہمارے دور کا 3840 ٹیکس آمدن کا ہدف حاصل نہ کرپائے۔ انہوںنے کہاکہ چودہ فیصد اضافہ ہوتا تو 600 ارب ملک کو مزید ملا ہوتا ،رواں مالی سال میں بھی پی ٹی آئی حکومت نے 700 ارب کے مزید نئے ٹیکس لگائے۔

انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی کا دعوی تھا کہ ٹیکس آمدن میں 5500 ارب تک جائیں گے لیکن ہمارا دوسال پرانا ہدف بھی پورا نہ کرپائے ،اگر مسلم لیگ (ن) کی پالیسی اپنائی جاتی تو موجودہ حکومت 5000 ارب کا ہدف با آسانی پورا کرلیتی ،ہمارے دور کی پالیسی جاری رہتی تو آئندہ مالی سال کا ہدف 5700 ارب روپے کا ہدف لیاجاسکتا تھا ۔ انہوں نے کہاکہ جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس آمدن بڑھنے کے بجائے اس میں مزید کمی آچکی ہے ۔

درپیش مسائل کی ایک وجہ ٹیکس جمع کرنے میں موجودہ حکومت کی ناکامی ہے ،روپے کی قدر میں 40 فیصد کی بڑی کمی نے معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ٹیکس وصولیوں کا بڑا حصہ درآمدات سے حاصل ہوتا ہے، روپے کی قدر سے ٹیکس بڑھنے کے آسان راستے تھے ،پی ٹی آئی کے دور میں ڈالر میں درآمدات کم لیکن روپے کے لحاظ سے بڑھ گئی ہیں ،اگر پہلے سال دس ڈالر درآمدات کم ہوئی تھیں تو روپے میں 20 فیصد بڑھ گئی تھیں۔

ٹیکس زیادہ ملنا چاہئے تھا ،ساڑھے چودہ فیصد سے زیادہ ٹیکس آمدن میں اضافہ ہونا چاہئے تھا، آمدن بڑھنے کے باوجود ٹیکس میں یہ اضافہ نہ کرسکے۔ انہوں نے کہاکہ 4950 ارب روپے کا ہدف پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا، ٹیکس ریفنڈ کے سو ارب منہا کریں تو 38 سوآٹھ ارب ان کا ہدف ہے،ہم معیشت کو 5.5 فیصد شرح نمو پرچھوڑ کر گئے جو 1.9 پر آگئی ہے،کرنٹ اکاونٹ خسارے کی بات کریں تو اس سے درآمدات میں 10 فیصد کمی ہوئی جس سے معیشت بہتر ہونی چاہئے تھی ۔

لارج سکیل مینو فیکچرنگ میں کمی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ صنعت کیلئے بجلی اور گیس میں کمی کی بات کی گئی لیکن موجودہ حکومت نے وعدے پورے نہیں کئے،زراعت پر بھی توجہ نہیں دی گئی جس سے زرعی پیداوار کم ہوئی، معیشت جمود کاشکار ہوئی ،معیشت پہلے ہی خراب تھی کورونا کے آنے کے بعد منفی میں چلی گئی ۔ انہوں نے کہاکہ اگر پانچ فیصد پر بھی شرح نمو ہوتی تو منفی میں نہ جاتے ،آزادماہرین کے مطابق منفی ڈیڑھ جبکہ ورلڈ بنک کے مطابق یہ منفی ایک فیصد رہے گی۔ انہوںنے کہاکہ پچھلے سال کے بجٹ میں 7.1 فیصد خسارے کا دعوی کیاتھا۔

حقیقت میں 9.1 فیصد رہا ،ہمارے دور کے آخری سال میں بجٹ خسارہ 6.5 فیصد تھا، ان کا پہلے سال 9.1 ہے۔ انہوںنے کہاکہ موجودہ حکومت نے منفی شرح نمو میں پی ایس ڈی پی بھی کم رکھا ہے کیونکہ ٹیکس ہدف پورا نہیں ہوا ۔ انہوںنے کہاکہ پی ایس ڈی پی میں کمی اور شرح سود بلند ہونے سے معیشت کی شرح نمو بہتر نہیں ہوسکتی ،ہم پبلک قرض کی ادائیگی میں 1500 ارب کا سود ہم ادا کرتے تھے، موجودہ حکومت نے 2300 ارب دیا، رواں مالی سال میں 2800 ارب دیں گے ۔

پالیسی ریٹ بڑھانے سے معاشی مسائل اور قرض کے بوجھ میں اضافہ ہوا ۔ انہوں نے کہاکہ گروتھ منفی ہو تو بجٹ بھی اسی لحاظ سے تیار ہونا چاہئے تاکہ معیشت کا پہیہ چلے، موجودہ بجٹ میں یہ چیز نظر نہیں آئی،پی ایس ڈی پی کا ہدف 700 ارب، اس سال رکھے ہی ساڑھے چھ سو ارب رکھے ،دیہی علاقوں میں تعمیراتی کام کرنا شروع کردیتے تو معیشت کا پہیہ چلتا، لوگوں کوروزگار ملتا، حکومت نے موقع ضائع کیا،کنزیومر طلب بھی کم ہوگئی، ٹیکس میں سہولیات دیتے تاکہ طلب میں اضافہ ہوتا۔ انہوں نے کہاکہ پندرہ سو ارب سے تین سو ارب روپے شرح سود میں چلاگیا ۔

انہوں نے کہاکہ 1500 ارب روپے ہماری پی ایس ڈی پی، حکومت چلانے کے خرچ سے تین گنا زیادہ اور دفاعی بجٹ سے زیادہ ہے، ہم نے بڑی قیمت بینکوں کو ادا کی ،اس بوجھ نے ملک کی معیشت میں کئی مشکلات پیدا کیں ،ٹیکس پر نظر ثانی ، پی ایس ڈی پی بڑھائیں اور پالیسی ریٹ کم کریں تاکہ قرض ادائیگی میں کمی ہو ، انہوں نے کہاکہ قرض پچاس فیصد سے بڑھایا دیا ہے، قرض 14292 ارب چھوڑ کر گئے ،2900ارب موجودہ حکومت نے پیسے رکھے ہیں جس کا مطلب ہے کہ شرح سود کم نہیں ہوگی ۔

انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی حکومت نے دو سال میں قومی قرض 50 فیصد سے زیادہ بڑھادیا ہے ،پیپلزپارٹی جب حکومت چھوڑ کر گئی تھی تو قومی قرض 14292 ارب روپے تھا،مسلم لیگ (ن) نے جب اقدار چھوڑا تو ایک ماہ بعد 30 جون کو یہ قرض بڑھ کر 24953 ارب ہوگیا ،پی ٹی آئی نے محض دو سال میں 10254 ارب روپے قومی قرض بڑھادیا ، جون کے آخر تک 37000 ارب تک پہنچ جانے کا خطرہ ہے ۔

انہوں نے کہاکہ 25000 ارب سے دو سال میں قرض 37000 ارب کردیا، قرض کی ادائیگی مزید بڑھ گئی ، یہ ملک کے لئے خطرے کی بات ہے ،شرح سود کم بھی کردیں تو اب 2200 ارب قرض ادا کرنا پڑے گا، دو سال میں یہ قرض بڑھنا ملک کے لئے بڑا خطرہ ہے ، انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ (ن) کے پانچ سال میں 10 ہزارچھ سو ارب قرض میں اضافہ ہوا ،یہ انتہائی سنجیدہ مسائل ہیں،کسی ایک پارٹی سے بالاتر ہیں، قومی اتفاق رائے پید اکرنا پڑے گا ۔

انہوں نے کہاکہ حکومت تجویز دے جس کے تحت وفاقی اور صوبوں کی فائنانسنگ بہتر ہو،مسلم لیگ (ن) نے آمدن بھی بڑھائی اوراخراجات کم کئے ، اسی لئے بجٹ خسارے پر قابو پایا تھا ، سابق وزیر خزانہ نے کہاکہ موجودہ حکومت کے دور میں بجٹ خسارہ 9.1 پر پہنچ چکا ہے، یونہی چلتا رہا تو یہ ڈبل ڈجٹ میں ہونے کا خدشہ ہے ،بجٹ خسارے سے بچنے کے لئے حکومت ٹیکس ہدف پورا کرے،پاکستان مسلم لیگ (ن) کو برا بھلا کہیں لیکن حکومت اپنا کام بھی تو کرے۔

ٹیکس ہدف پورا کرے ۔ انہوںنے کہاکہ این ایف سی چھیڑنے کے بجائے حکومت اپنا ہوم ورک پورا کرے، قرض پر قابو پائے، ٹیکس ہدف پورا کرے ،قرض میں اضافے سے حکومت کا خرچ بھی بڑھ گیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ باتیں کرنا اور مسلم لیگ (ن) کو برا بھلا کہناآسان ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ پی ٹی آئی کی معاشی مینجمنٹ اچھی نہیں رہی ۔ انہوں نے کہاکہ ڈیڑھ ارب ڈالر کا آئی ایم ایف نے قرض دیا، مقامی قرض بھی مل گیا ، بیرونی محاصل بھی ٹھیک ہیں، ٹریڈ توازن بہتر ہوا ہے ،سرکاری ملازمین کی تنخواہ بڑھادیں، 30 فیصد سے زائد خرچ نہیں ہوتا ،امید ہے کہ وزیر خزانہ اپنی بجٹ تقریر سمیٹتے ہوئے سرکاری گریڈ ایک سے 16 تک کے ملازمین کی تنخواہیں بڑھائیں گے۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…