اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار حامد میر اپنے کالم ’’کورونا تو ہمارا دشمن نہیں!‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔کورونا وائرس کے اس دور وباء میں صبح شام بُری خبریں مل رہی ہیں۔ لاکھوں لوگ اس وباء کا شکار ہو چکے ہیں لیکن ہمارے ارد گرد ایسے عقلمندوں کی کمی نہیں جو ابھی تک اس وباء کو ایک فراڈ اور دھوکہ سمجھتے ہیں۔ کورونا وائرس کا مقابلہ صرف احتیاط سے ہو سکتا ہے لیکن اس دورِ وباء میں
اتنی زیادہ بےاحتیاطی دیکھنے کو مل رہی ہے کہ زبان سے بار بار ایک ہی لفظ نکلتا ہے۔ توبہ توبہ۔ یااللہ ہمیں ہدایت دینا۔ دنیا کی اکثر اقوام کورونا وائرس پر آہستہ آہستہ قابو پاتی جا رہی ہیں لیکن ہمارے ہاں بےاحتیاطی کے باعث حالات روز بروز بگڑ رہے ہیں۔ جب دنیا اس وباء کا مقابلہ لاک ڈائون سے کر رہی تھی تو ہم آپس میں جھگڑ رہے تھے کہ کورونا کا مقابلہ لاک ڈائون سے کیا گیا تو دیہاڑی دار مزدور کدھر جائیں گے؟ غریب لوگ کھانا کہاں سے کھائیں گے؟ پچھلے دو تین ماہ میں مجھے اپنے ارد گرد کوئی ایک غریب بھی بھوک سے مرتا دکھائی نہیں دیا البتہ بہت سے امیر اپنی بےاحتیاطی کے باعث کورونا وائرس کا شکار ضرور ہوئے۔ کورونا کے دورِ وباء میں صرف سماجی و سیاسی بےاحتیاطیاں نہیں بلکہ ادبی بےاحتیاطیاں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ہمارے وزیراعظم عمران خان نے 6جون کو اسد معروف کی ایک نظم ٹویٹ کی اور دعویٰ کر دیا کہ یہ شاعر مشرق علامہ اقبال ؒکی نظم ہے۔ جب غلطی کی نشاندہی کی گئی تو وزیراعظم صاحب نے یہ تو تسلیم کر لیا کہ یہ علامہ اقبال ؒکی نظم نہیں لیکن اسد معروف کو اس نظم کا کریڈٹ نہیں دیا حالانکہ ان کا مسلم لیگ(ن) سے کوئی تعلق نہیں۔ اب ذرا چند لمحوں کیلئے آنکھیں بند کیجئے اور سوچئے کہ اگر آج علامہ اقبالؒ زندہ ہوتے اور عمران خان ان کے خوابوں کی سرزمین کا وزیراعظم بننے کے بعد کسی اور کی نظم شاعر مشرق کی تصویر لگا کر ٹویٹ کر دیتا تو جناب اقبالؒ کے دل پر کیا گزرتی؟ جب وبائیں اور آفات آتی ہیں تو قوموں کا امتحان شروع ہو جاتا ہے۔
آج پاکستان اور ہندوستان کو صرف کورونا وائرس کا نہیں بلکہ ٹڈی دل کا بھی سامنا ہے۔ ٹڈی کا ذکر تو قرآن پاک، بائیبل اور مہابھارت میں بھی ہے اور اسے بھی عذاب سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہمیں صرف ایک نہیں دو دو آفتوں کا سامنا ہے لیکن ذرا اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور سوچیں کہ کیا ہم نے آپس میں لڑنا جھگڑنا کم کیا ہے؟ کیا ہم مل کر ان آفتوں کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہیں؟ کیا ہم نے اپنی اپنی انائوں کے
بت توڑے یا نہیں؟فروری اور مارچ 2020میں جب کورونا وائرس کا دنیا پر حملہ شروع ہوا تو ہم آٹا اور چینی اسکینڈل پر بحث کر رہے تھے۔ پھر ایک انکوائری کمیشن بن گیا۔ وزیراعظم صاحب نے قوم سے وعدہ کیا کہ اس اسکینڈل میں ملوث کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ پھر انکوائری کمیشن کی رپورٹ آ گئی۔ وزیراعظم کے اپنے قائم کردہ کمیشن نے ان کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین کی کرپشن کو بےنقاب کیا۔
کئی دن تک جہانگیر ترین کی کرپشن اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی نااہلی میڈیا پر زیر بحث رہی اور آخر میں کیا ہوا؟ آخر میں یہ ہوا کہ جہانگیر ترین بغیر کسی روک ٹوک کے ہوائی جہاز میں بیٹھ کر برطانیہ چلے گئے۔ اب آپ جو بھی ڈھول بجائیں لیکن شوگر اسکینڈل کا مرکزی کردار تو آپ نے بھگا دیا اب آپ نے شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی کو گرفتار کرکے ہمیں یہ بتانا ہے کہ تحریک انصاف کرپشن کے
خلاف جہاد کر رہی ہے اور اگر ہم آپ سے یہ پوچھنے کی گستاخی کریں گے کہ جہانگیر ترین کو کس نے بھگایا تو آپ ہمیں غدار اور ملک دشمن قرار دیکر چپ کرانے کی کوشش کریں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ تین ماہ قبل اپوزیشن نے کورونا وائرس کے خلاف لڑائی کیلئے حکومت کو اپنا تعاون پیش کیا تھا لیکن حکومت نے تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کیا۔ کورونا وائرس کے دورِ وباء میں ہم کورونا سے نہیں ایک دوسرے سے لڑتے رہے۔
وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کو برا بھلا کہا، سندھ حکومت نے وفاق کو کوسا۔ سیاسی حکمت و تدبر کہیں نظر نہیں آیا۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے نام سے ایک ادارہ بنا کر کورونا وائرس کے خلاف قومی پالیسی وضع کرنے کی کوشش کی گئی۔ ابتداء میں اس ادارے نے اچھا کام کیا لیکن وزیراعظم اور ان کی ٹیم اس ادارے کے ذریعہ قومی یکجہتی پیدا کرنے میں ناکام رہے اور ہفتہ کی دوپہر اس ادارے کے
سربراہ اسد عمر کی پریس کانفرنس ان کے تفادات کا تماشہ ہو کر رہ گئی۔ ہو سکتا ہے میری یہ قلمی گستاخیاں کچھ اہلِ اختیار کو بہت ناگوار گزریں لیکن گزارش یہ ہے کہ آج آپ کے پاس اختیار و اقتدار ہے لیکن کچھ سال کے بعد آپ قصہ ماضی بن جائیں گے اور آپ کے بارے میں جو تاریخ لکھی جائے گی وہ آپ کو عبرت کا نمونہ بنا دے گی۔ تاریخ میں یہ لکھا جائے گا کہ جب ہندوستان نے مقبوضہ جموں و کشمیر پر غاصبانہ
قبضے کیلئے 370اور 35اے ختم کرکے وہاں تاریخ کا بدترین کرفیو نافذ کیا تو پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن نے متحد ہو کر کشمیریوں کا ساتھ دینے کے بجائے ایک دوسرے کو جیلوں میں ڈالنے اور غدار، غدار کہنے کی روایت کو برقرار رکھا۔ تاریخ میں لکھا جائے گا کہ جب پاکستان کے سب اداروں کو متحد ہو کر غیرملکی سازشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے مشترکہ حکمت عملی بنانا تھی تو یہ ادارے متحد ہو کر
سپریم کورٹ کے ایک جج قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف لندن میں ثبوت تلاش کرتے رہے اور نااہلی کے ریفرنس کے ذریعہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کا وقت برباد کرتے رہے۔ تاریخ میں لکھا جائے گا کہ جب قوم کے سامنے موت کھڑی تھی تو قوم کو موت کی نہیں ایک امریکی شہری سنتھیا ڈی رچی کی زیادہ فکر تھی جو مختلف سیاست دانوں پر ریپ کے الزماات لگاتی رہی اور یہ نہ بتا پائی کہ جب ریپ ہوا تو خاموش کیوں رہی
لیکن پھر نو سال کے بعد ریپ کا الزام کیوں لگا دیا؟ تاریخ میں لکھا جائے گا کہ ہم روزانہ آزادیٔ صحافت کے حق میں نعرے لگاتے تھے اور روزانہ آزادیٔ صحافت کے دشمنوں سے ڈکٹیشن بھی لیتے تھے، تاریخ میں لکھا جائے گا کہ ہم جمہوریت پسندی کا دعویٰ کرتے تھے لیکن اندر سے ہم ڈکٹیٹرز تھے۔ تاریخ میں لکھا جائے گا کہ ہمیں کورونا وائرس اور ٹڈی دل نے نہیں بلکہ ہماری انا پسندی، خود غرضی اور خود فریبی نے تباہ کیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت عطاء فرمائے اور عبرت کی مثال نہ بنائے لیکن اگر ہم نے اپنے آپ کو نہ بدلا تو تاریخ میں یہ لکھا جائے گا کہ ہمیں کسی وباء نے نہیں ہم نے خود ایک دوسرے کو برباد کر ڈالا۔