اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار حامد میر اپنے کالم ’’کون ٹارزن؟‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔زیادہ پرانی بات نہیں۔ شوگر اسکینڈل کی انکوائری شروع ہوئی تو کھلبلی مچ گئی۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن والے وزیراعظم کے پاس پہنچ گئے اور اُنہیں کہا کہ اگر انکوائری بند نہ ہوئی تو مارکیٹ سے چینی اٹھا لی جائے گی۔وزیراعظم بھاگے بھاگے صدر صاحب کے پاس پہنچے اور بتایا کہ اگر شوگر اسکینڈل کی
انکوائری بند نہ ہوئی تو چینی مہنگی ہو جائیگی۔ صدر صاحب نے اس انکوائری پر شدید خفگی کا اظہار کیا اور پھر یہ انکوائری بند ہو گئی۔ کیا آپ کو سمجھ آ گئی کہ یہ خاکسار کون سی انکوائری کی بات کر رہا ہے؟ جی ہاں یہ انکوائری آج سے پندرہ سال قبل 2005میں شروع ہوئی تھی اور یہ ایف آئی اے نے نہیں بلکہ نیب نے شروع کی تھی۔ آپ کو یہ بتانا بھی بہت ضروری ہے کہ اُس وقت نیب کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز تھے۔اُن کی تایا زاد بہن کی شادی جنرل پرویز مشرف کے بیٹے سے ہوئی تھی لیکن شاہد عزیز لاہور کے کور کمانڈر اور چیف آف جنرل ااسٹاف اس رشتہ داری کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی قابلیت اور ایمانداری کی وجہ سے بنے تھے۔ لاہور کے کور کمانڈر کی حیثیت سے اُنہوں نے ڈی ایچ اے لاہور میں ایک انکوائری شروع کرائی تو نیب کے چیئرمین نے اُن کی انکوائری شروع کر دی تھی۔ چیف آف جنرل ااسٹاف کی حیثیت سے اُنہوں نے اپنے فوجی اڈے امریکا کو دینے کی مخالفت کی تو کبھی پرویز مشرف کی اس خواہش کے سامنے ڈٹ گئے کہ پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لینا چاہئیں۔ ایک دن جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ طارق عزیز نے چھ ستمبر کو لاہور میں گھوڑوں کی ریس کا اہتمام کیا ہے تم وہاں بطور چیف گیسٹ چلے جائو۔لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز نے کہا، سر مجھے اس کام سے دور رکھیں مشرف نے کہا کہ یہ ریس قانون کے مطابق ہوتی ہے لیکن شاہد عزیز نے کہا کہ سر اچھا نہیں لگے گا کہ چھ ستمبر کے دن ایک کور کمانڈر جوئے کی ریس میں انعام بانٹ رہا ہو۔ کچھ ہی عرصے میں شاہد عزیز کو فوج سے ریٹائر کر کے نیب کا چیئرمین لگا دیا گیا۔ شاہد عزیز سے میری پہلی ملاقات نیب ہیڈ کوارٹر میں ہوئی۔ اُنہوں نے بتایا کہ وہ کرپشن کے خلاف ایک بڑی جنگ شروع کرنے جا رہے ہیں اور اُنہیں میڈیا کا تعاون درکار ہے۔