اسلام آباد (این این آئی)امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ وزیراعظم کی ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر دینے کے وعدوں کی خیالی عمارت زمین بوس ہوگئی۔حکومت پہلے دن سے ہی وژن کے بحران کا شکار ہے۔پہلے سے آزمائے ہوئے ٹولے نے ملک کو بحرانوں کی آماجگاہ بنا دیا۔وزیراعظم کو 22کروڑ عوام کی نہیں اپنے کچھ پیاروں کے مفادات کی فکر ہے۔اگر وہ آٹے اور چینی کا بحران پید اکرنے والوں کو جانتے ہیں تو پھر اب کمیٹیاں بنانے کی کیا ضرورت ہے۔
آٹے چینی کے ذخیرہ اندوز اور راتوں رات اربوں کمانے والے کسی سے چھپے ہوئے نہیں،وزیراعظم کے ہی آس پاس موجود ہیں انہیں ڈھونڈنے کی نہیں پکڑنے کی ضرورت ہے۔وزیر اعظم کو اگر واقعی احتساب میں دلچسپی ہوتی تو سب سے پہلے خود کو اور اپنے وزراء کو احتساب کیلئے پیش کرتے۔بڑے مجرموں کی پردہ پوشی اور چھوٹوں کو جیلوں میں بند کرنے سے جرائم کا خاتمہ نہیں ہوگا۔مہنگائی اور بے روز گاری کی صورتحال یہی رہی تو حکمران عوامی غیظ و غضب سے نہیں بچ سکیں گے۔جب تک خوف خدا رکھنے والی دیانتدار قیادت برسراقتدار نہیں آتی مسائل حل نہیں ہونگے۔72سال میں ایک بار بھی اسلام کے عادلانہ نظام کو نہیں آزمایا گیا۔آئینی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے سود کا خاتمہ کرکے عشروزکواۃ کے معاشی نظام کو رائج کیا جائے۔جب تک اللہ سے بغاوت کا رویہ ترک نہیں کیا جاتا معاشی ترقی اور خوشحالی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔مدارس اسلام کے قلعے ہیں ان کے تحفظ کیلئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر مدارس کے خلاف کوئی قدم اٹھایا گیا تو حکمرانوں کے خلاف پوری قوم اٹھ کھڑی ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سنگوٹہ سوات میں مدرسہ احیاء العلوم میں ختم بخاری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ ملک میں مہنگائی کے برسوں پرانے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں،گیس بجلی اور تیل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے مہنگائی آسمان پر پہنچ گئی ہے اور لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے ہیں۔
حکومت کے معاشی افلاطون خیالوں کے محل تعمیر کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکے۔عملاً پورے معاشی نظام کو آئی ایم ایف کے حوالے کردیا گیا ہے،مفلسی اور پسماندگی نے دیہاتوں کے ساتھ ساتھ شہروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔لوگ بے بسی سے ہاتھ مل رہے ہیں او ر حکمران بے حسی کی آخری حد پر پہنچ گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اشیائے خوردونوش کی گرانی نے عام آدمی کیلئے جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھنا محال بنا دیا ہے۔
عوام میں بڑھتی ہوئی مایوسی اور بے یقینی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ سابقہ حکومتوں نے عوام کو کپڑوں سے محروم کیاتھا، موجودہ حکومت کے بس میں ہوتاتوسانس لینے پر بھی ٹیکس لگادیتی۔جس ملک کا وزیر اعظم خود کہتا ہوکہ دولاکھ میں اس کا گزارہ نہیں ہوتا اس کے عوام جن کے پاس گھر ہے نہ روز گار ان کی پریشانیوں کا مداوہ کون کرے گا۔انہوں نے کہا کہ
پی ٹی آئی نے سب سے زیادہ دعوے معیشت کو بہتر بنانے کے کئے تھے۔ اب معاشی صورتحال اس قدر دگرگوں ہوچکی ہے کہ عوام کے صبر کا پیمانہ کسی وقت بھی لبریز ہوسکتا ہے،اگر بھوک اور غربت کے مارے لوگوں نے جھونپڑیوں سے نکل کر حکمرانوں کے عالی شان محلوں اور بنگلوں کا محاصرہ کرلیا تو انہیں بھاگنے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔انہوں نے کہا کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے اور اشیائے خورد و نوش کی
قیمتوں میں کمی لانے کیلئے ضروری ہے کہ گیس بجلی اور تیل کی قیمتیں کم کی جائیں۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ دینی مدارس کے خلاف چلائی جانے والی بے بنیاد پروپیگنڈہ مہم میں موجودہ دور حکومت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ مدارس میں پڑھنے والے 35لاکھ طلباء و طالبات قرآن و سنت کا علم حاصل کررہے ہیں،عالمی استعمار اور آئی ایم ایف کے غلام حکمرانوں کو یہ مدارس ایک آنکھ نہیں بھاتے
اور وہ ان مدارس کے نصاب کو بھی بدلنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان مدارس کو عوام اپنی مدد آپ کے تحت چلارہے ہیں، مدارس کوحکومتی گرانٹ نہیں ملتی پھر حکومت کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر مدارس کا نصاب تبدیل کرے اور قرآن و سنت کی تعلیمات اور انبیاء و صحابہ کرام ؓ کی سوانح حیات کے بجائے انہیں مغربی مفکرین کے کارنامے پڑھائے جائیں۔انہوں نے کہا کہ مدارس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کو قوم کسی صورت برداشت نہیں کرے گی۔