اسلام آباد ( این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے امل عمر ہلاکت ازخودنوٹس نمٹا تے ہوئے سندھ حکومت کو امل کے والدین کو دس لاکھ روپے امداد دینے کی ہدایت کی ہے ۔ منگل کو دوران سماعت امل کی والدہ بیٹی کی یاد میں آبدیدہ ہوگئیں اورکہاکہ عدالت کے مشکور ہیں۔اس موقع پر چیف جسٹس نے سندھ پولیس کے حوالے سخت آبزرویشنز دیتے ہوئے کہاکہ پولیس کو علم ہی نہیں کہاں گولی چلانی ہے
کہاں نہیں؟پولیس میں آفیسرز کا کام ہے کانسٹبلری کا نہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ پولیس کو عزت افسران دلا سکتے ہیں کانسٹیبل نہیں، کانسٹیبل صرف حکم مانتا اور اس چکر میں اپنے کام نکالتا ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ محکمہ بدنام ہونے پر کانسٹیبل کو کوئی فکر نہیں ہوتی، پولیس کو سب معلوم ہوتا ہے سٹریٹ کرائم میں کون ملوث ہے، تین دن پہلے ایک لڑکے سے سکول بیگ تک چھین لیا گیا۔چیف جسٹس نے کہاکہ چار لوگ ایک نوجوان پر اسلحہ تان لیں تو وہ کیا کریگا،سنا ہے پولیس میں مزید 20 ہزار بھرتیاں ہو رہی ہیں، لگتا ہے سڑکوں پر عوام سے زیادہ پولیس ہوگی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ چلتی سڑک پر ڈکیتیاں ہونا پولیس کی ناکامی ہے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ کراچی میں رینجرز نے ایک لڑکے کو گولی مار کر قتل کیا تھا۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ رینجرز نے سپریم کورٹ تک اپنے اہلکار کا مقدمہ لڑا، پولیس واقعہ ہوتے ہی اپنا اہلکار برطرف کر دیتی ہے۔ انہوںنے کہاکہ پولیس اہلکاروں نے امل کو جان بوجھ کر نہیں مارا ہوگا، پولیس کی مناسب ٹریننگ کی ضرورت ہے۔جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ اداروں کو اپنے جوانوں کیساتھ کھڑے ہونا چاہیے، ادارے جوان کا ساتھ ہی نہ دیں تو وہ کام کیسے کرے گا۔ دور ان سماعت عدالت نے کہاکہ امداد امل کے والدین اور راہ امل ٹرسٹ کو برابر تقسیم کی جائے۔ عدالت نے پولیس سمیت تمام متعلقہ اداروں کو انکوائری کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کا حکم دیا ۔ عدالت عظمیٰ نے واقعہ میں ملوث پولیس اہلکاروں کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کی ہدایت کی ۔امل عمر کے والدین نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ نے ٹرسٹ کے لیے فنڈز دینے کا کہا ہے جو بہت اچھی بات ہے۔والدہ نے کہاکہ جسٹس ثاقب نثار کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے نوٹس لیا،سندھ حکومت سے مدد کی اپیل ہے۔ اس موقع پروالدین نے میڈیا سمیت تمام لوگوں کی حمایت کا شکریہ ادا کیا ۔