اسلام آباد،لاہور،کراچی، کوئٹہ،پشاور(آن لائن)کراچی سے خیبر تک آٹے کا بحران، ستر روپے فی کلو تک فروخت ہونے لگا، غریب عوام کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ گئے اور قیمت سن کر چودہ طبق بھی روشن ہو گئے۔ آٹے بحران کے بعد نان روٹی ایسوسی ایشن نے بھی قیمتوں میں اضافے کا عندیہ دیدیا۔تفصیلات کے مطابق ملک بھر کی طرح لاہور میں بھی آٹا نایاب ہے۔ بیس کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت گیارہ سو روپے تک جا پہنچی ہے۔
بحران کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گندم ذخیرہ کر لی گئی ہے۔ چکیوں پر آٹا 70 روپے کلو میں فروخت کیا جا رہا ہے جبکہ عام مارکیٹ سے معیاری آٹا بھی نایاب ہو چکا ہے۔ بعض مقامات پر 20 کلو آٹے کا تھیلا 900 سے 1100 روپے کلو میں دستیاب ہے۔وزیر خوراک پنجاب سمیع اللہ خان نے سب اچھا کی رپورٹ دینے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کہیں بحران ہے تو بتائیں؟ صوبائی حکومت اب تک گراں فروشوں کے خلاف 14 کروڑ کے جرمانے کر چکی ہے۔ادھر ڈپٹی کمشنر لاہور دانش افضال کا کہنا تھا کہ شہر میں جہاں جہاں آٹا بحران کی شکایات ہیں، وہاں آٹا پہنچا دیا گیا ہے۔ کنٹرول ریٹ پر گندم کی فراہمی کے باوجود چکی پر آٹے کی قیمت 70 روپے سے کم نہ ہوئی تو کارروائی کریں گے۔انتظامیہ نے ماڈل بازاروں میں آٹے کی قیمت 790 روپے کر رکھی ہے جبکہ عام مارکیٹ میں زیادہ سے زیادہ 805 روپے میں فروخت کرنے کی اجازت دی ہے۔کراچی کی بات کی جائے تو وہاں آٹے کی قیمت ہر گزرتے دن کے ساتھ نئے ریکارڈ بنا رہی ہے۔ صرف پانچ ماہ میں دس کلو آٹے کی قیمت میں دو سو سے ڈھائی سو روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ فائن ہو یا چکی دس کلو آٹے کی قیمت 700 روپے تک پہنچ گئی ہے۔مارکیٹ ذرائع کے مطابق گندم کی قلت کے علاوہ قیمت کے بڑھنے میں بڑے پیمانے پر ذخیرہ اندوزی کا بھی عنصر بھی شامل ہے جس کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔دکانداروں کے مطابق آٹے کی طلب زیادہ ہے مگر سپلائی انتہائی کم ہے۔
گزشتہ تین ماہ کے دوران سندھ میں گندم کی 100 کلو والی بوری کی قیمت 1300 روپے اضافے سے 5 ہزار 300 روپے تک پہنچ چکی ہے۔سندھ کے وزیر خوراک اسماعیل راہو نے فردوس عاشق اعوان کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی حکومت کے پاس پیسوں کی کمی تھی، وفاق نے فنڈز نہیں دیئے، وہ اپنی نااہلی چھپانے کیلئے سارا ملبہ سندھ حکومت پر ڈال رہی ہے۔دوسری جانب کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں آٹے کا بحران مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔
مارکیٹ میں 20 کلو آٹے کی قیمت گیارہ سو بیس روپے تک پہنچ گئی ہے۔ شہر کے یوٹیلیٹی سٹورز سے آٹا بھی غائب ہو گیا ہے۔فلور ملوں کی جانب سے ضرورت کے مطابق آٹا مہیا نہیں کیا جا رہا ہے کیوں کہ سرکاری طور پر گندم فراہم نہیں کی گئی جس کی وجہ سے مارکیٹ میں آٹے کی ترسیل نہیں ہو پا رہی ہے۔ آٹے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث تندور مالکان نے بھی روٹی کا وزن کم کرنے اور قیمتیں بڑھنے کا عندیہ دے دیا ہے۔خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے پنجاب حکومت سے رابطے کے بعد آٹے کی ترسیل شروع ہو گئی ہے
جس کے بعد قیمتوں میں تو کسی حد تک کمی ہوئی لیکن نانبائیوں نے روٹی کی قیمت میں اضافے کا عندیہ دے دیا ہے۔آٹا ڈیلر ایسوسی ایشن کے صدر حاجی رامبیل کے مطابق پنجاب میں قائم چیک پوسٹوں کے باعث گزشتہ پانچ روز سے آٹے کی سپلائی مکمل طور پر بند تھی تاہم گزشتہ رات آٹے کی سپلائی بحال ہونے سے بحران ختم ہو چکا ہے جبکہ قیمتوں میں بھی کسی حد تک کمی ہوئی ہے۔نانبائی ایسوسی ایسشن کے صدر خستہ گل کے مطابق ڈپٹی کمشنر پشاو نے غیر اعلانیہ طور پر انہیں 170 گرام روٹی کی قیمت 15 روپے پر فروخت کی اجازت دے دی ہے
تاہم جب تک نرخنامہ مقرر نہیں کیا جاتا اس قیمت پر فروخت نہیں کریں گے۔ وزیر اطلاعات خیبر پختونخوا شوکت یوسفزئی کا کہنا ہے کہ صوبے میں آٹے کا کوئی بحران نہیں، گندم وافر مقدار میں موجود ہے۔ادھر وفاقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی فواد چودھری نے مہنگائی کی وجہ لیگی قیادت کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک کوقرضوں میں ڈبویا گیا۔ انہوں نے مریم اورنگزیب کے بیان پر ردعمل میں کہا کہ معاشی عدم استحکام سے نکلنا اہم ہے، آپ یہ سبق نہ پڑھائیں، مڈل کلاس کے غم میں آپ جتنے بے حال ہیں عوام کو پتا ہے۔ ن لیگ کی لیڈرشپ لندن سے واپس تشریف لائے،
سابق حکمرانوں نے ڈالر باہر منتقل کئے اور ملک کو قرضوں میں ڈبو دیا۔پنے ایک بیان میں مسلم لیگ(ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے ملک میں آٹے کے بحران پر تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ گندم کا بحران عوام کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس کے کردار سامنے لانا ہوں گے، 16 ماہ میں گندم کے ذخائر کہاں گئے، ذخائر کم تھے تو برآمد کرنے کا فیصلہ کیوں ہوا، جب ملک میں کمی تھی تو گندم اور آٹا ملک سے باہر کیوں بھیجا گیا، تحقیقات کی جائیں کہ کس کے حکم پر آٹا بیرون ملک بھجوایا گیا، قوم کو بتایا جائے کس کے حکم پر اور کس قیمت پر گندم اور آٹا برآمد ہوا۔صدر(ن)لیگ کا کہنا تھا کہ ملک میں اصلاحات کے نام پر حماقتوں کا بازار گرم ہے، اس افراتفری میں چند موقع پرستوں کے وارے نیارے ہوگئے ہیں،
قوم کو معلوم ہونا چاہیے کہ ملک و قوم کا نقصان کرکے کس نے فائدہ اٹھایا، اگر عمران خان لاعلم ہیں تو وہ نالائق ہیں اور اگر ان کی مرضی سے ہورہا ہے تو پھر وہ کرپٹ عناصر کے سرغنہ ہیں۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ 16 ماہ میں ہر چیز کے تباہ ہونے کی وجوہات کا پتہ لگانا ہوگا، ہر شعبے کی تنزلی کو بریک نہ لگا تو چند ماہ بعد حالات ٹھیک کرنے کے لئے کسی معجزہ کی ضرورت ہوگی، صورتحال کی تنزلی کا یہی عالم رہا تو 3 ماہ بعد کا سوچ کر خوف آرہا ہے، معاشی ماہرین کے تجزیات درست ہیں تو آنے والا وقت قوم کی چیخوں کو آسمان پر پہنچا دے گا۔مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ یہ احساس کی ریاست نہیں، بے حسی کی حکومت ہے۔ ہر شعبے کے لوگ دہائی دے رہے ہیں۔ عمران صاحب ایک عذاب بن کر قوم پر نازل ہوئے۔ خوراک کی قیمتوں میں 82 فیصد اضافہ حکومت کی بے حسی کا ثبوت ہے۔ جو حکومت سستا ٹماٹر، پیاز اور سبزی نہیں دے سکتی، وہ عوام کو ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر کیسے دے سکتی ہے؟ عمران خان نے عوام کو رلانے کا وعدہ پورا کر دیا۔