اسلام آباد (آن لائن)ایف بی آر نے ملک میں 17امپورٹرز کی جانب سے انڈر انوائسنگ کے ذریعے آئی ٹی مصنوعات درآمد کرنے کا انکشاف کیا ہے۔ امپورٹرز نے 1کروڑ ڈالر کی آئی ٹی مصنوعات درآمد کی۔ اَنڈر انوائسنگ کرنے والوں کے خلاف جلد کیس عدالت میں لے جایا جائے گا۔ بینکنگ چینلز کو دیکھا جا رہا ہے کہ رقوم کس ذریعے سے بیرون ملک بھجوائی جا رہیں جو کہ منی لانڈرنگ کے زمرے میں آتا ہے
تفصیلات کے مطابق سینیٹر مرزا محمد آفریدی کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت و ٹیکسٹائل کا اجلاس ہوا جس میں فیڈرل بورڈ آف ریوینو کے حکام نے کمیٹی کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مصنوعات کے درآمد پر بریفنگ دی اس موقع پر جواد اویس آغا نے کہا کہ ملک کے اندر 17امپورٹرز کی جانب سے انڈر انوائسنگ کے ذریعے آئی ٹی کی مصنوعات درآمد کی جا رہی ہیں جس کی تفصیلات ملنے پر انوائس کی تصدیق کیلئے مینوفیکچرر کمپنیوں سے رابطہ کیا گیا ہے جبکہ اس معاملے پر ہائی کمشنر سنگاپور کو خط بھی لکھا گیا جس میں مینوفیکچرر کمپنیوں سے ادائیگیوں کی تفصیلات بھی مانگی گئی ہیں ان سے خط میں پوچھا گیا ہے کہ کیا یہ ادائیگیاں بینکنگ کے کس ذرائع سے ہوئی ہیں یاد رہے ملٹی نیشنل کمپنیاں کیش میں ڈیل نہیں کرتیں اس موقع پر سینیٹر شبلی فراز نے ایف بی آر حکام کو آڑھے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر کسٹم انٹیلی جنس کا محکمہ بہت سست کام کررہا ہے اس وقت تک محکمہ آڈٹ نہیں کیا گیا جس پر ایف بی آر کسٹم انٹیلی جنس کے حکام نے کہا ہے کہ 8 جنوری کو محکمہ کو کسٹم آڈٹ کی آڈٹ رپورٹ ملی ہے جس پر سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ پھر ہم ان کو سست نہیں کہہ سکتے۔ ایف بی آر حکام نے مزید بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ مقامی درآمدی کمپنیوں نے پروڈکٹ ویلیوشن 50 فیصد زیادہ کم ڈیکلیئر کی جبکہ امپورٹرز نے نے 1 کروڑ ڈالر کے آئی ٹی آلات درآمد کئے سپلائرز کی جانب سے 48 لاکھ مالیت کا سامان ڈکلیئر کیا گیا
کسٹم آڈٹ کی جانب سے انڈر انوائسنگ کے 3ارب 70 کروڑ آڈٹ اعتراضات کی نشاندہی کی گئی اس موقع پر کمیٹی نے پرال اور ویبوک (VBOK)کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کردیا وی بوک کے انٹرنل آڈٹ کے حوالے سے کمیٹی اراکین نے متفقہ طور پر ذیلی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کر دیا اورکمیٹی نے پرال اور ویبوک نظام پر ایف بی آر سے تفصیلی بریفنگ طلب کر لی۔اس موقع پر کسٹم حکام نے لیپ ٹاپس اور ڈیسک ٹاپس کی درآمداد کے حوالے سے مزید بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ لیپ ٹاپس اور ڈیسک ٹاپ کی ویلیو ایشن درست نہیں تھی۔
لیپ ٹاپس اور ڈسک ٹاپ کی ویلیو ایشن ایسسمنٹ کرلی ہے اب اسکے تحت ہی انکی کلیئرنس ہو گی جبکہ تیسرے ملک میں فروخت کیلئے جعلی انوائسز بنائی جاتی ہیں،اس سے براہ راست امپورٹ کرنیوالوں کو نقصان ہو تاہے ڈی انڈسٹریلائزیشن میں انڈر انوایسنگ کرکے امپورٹ کرنے کا کردار ہے۔ اس موقع پر چیئرمین کمیٹی مرزا محمد آفریدی نے کہا کہ آئی ٹی مصنوعات کی درآمداد میں سرٹیفیکیٹ آف اوریجن اور مس ڈکلیئریشن کا مسئلہ آرہا ہے۔ اس موقع پر ڈائریکٹر انٹیلی جنس کسٹم کراچی عرفان جاوید نے کہا 17امپورٹرز کی جانب سے انڈر انوائسنگ کے
ذریعے آئی ٹی مصنوعات درآمدکی گئیں اب ہم بینکنگ چینلز کو دیکھ رہے ہیں کہ رقوم کس ذریعے سے باہر گئی اور سٹیٹ بنک آف پاکستان کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ سے ان لوگوں کے بنک اکاؤنٹس جن سے رقوم ملک سے باہر گئی اسکی تفصیل بھی ایف بی آر نے طلب کر لی ہیں م عرفان جاوید نے مزید کہا کہ انڈر انوائسنگ کرنیوالوں کیخلاف آئندہ ماہ تک کیس عدالت لے جائیں گے کیونکہ غیر قانونی طریقے سے رقوم باہر بھیجی جارہی ہیں جو کہ منی لانڈرنگ کے زمرے میں آتا ہے اور 15 مارچ تک انڈر انوائسنگ کے معاملے پر پیش رفت سے آگاہ کیا جائے۔اس موقع پر سینیٹر شبلی فراز نے کہ کہ نڈر انوائسنگ اور منی لانڈرنگ کو روکنا اصل مقصد ہے حوالہ ہنڈی کے ذریعے پیسے بھیج کر دوبئی کے راستے سے اشیاء درآمد کی جاتی ہیں اور اس سے ان لوگوں کو نقصان ہوتا ہے
جو لیگل طریقہ کار کے ذریعے درآمدات کرتے ہیں اس عمل سے محصولات کی مد میں بھی ملک کو نقصان ہوتا ہے جس بر سینیٹر دلاور خان نے کہا کہ انڈر انوائسنگ میں ملٹی نیشنل کمپنیاں خود ملوث ہیں اس معاملے پر ملٹی نیشنل کمپنیوں نے تعاون کیا ہے ان کی طرف سے اعدادوشمار ملے ہیں شاہنواز کمپنی کی تفصیلات نکا ل کر دیکھی جائیں سب کچھ عیاں ہو جائے گا اس سینیٹر دلاور خان نے مزید کہا کہ ڈیل Dell اور شاہنواز کا موازنہ انتہائی ضروری ہے جس پر ایف بی آر حکام نے کہا کہ آئی ٹی مصنوعات کی اصل قیمتوں کا اندازہ لگانے کیلئے مینوفیکچرر کمپنیوں سے رابطہ کیا گیا ان سے قیمتوں کی فہرست بھی لے لی گئی ہیں اوریہی قیمتیں تمام کلیئرنس کلکٹریٹس کو جائزہ کیلئے بھیجی گئیں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت و ٹیکسٹائل میں چیئرمین کمیٹی سینیٹر مزا محمد آفریدی سمیت سینیٹر شبلی فراز، سینیٹر احمد خان، سینیٹر دلاور خان، سینیٹر رانا محمود الحسن، سینیٹر نذہت صدیقی ، سینیٹر عطاء الرحمان شریک تھے۔