لاہور(این این آئی) مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ جمہوری دور ہو یا مارشل لاء کا دور گورننس سٹرکچر ہمیشہ کمزور رہا ہے،اگر بھارت اور بنگلہ دیشن کی سیونگ ہم سے زیادہ ہے تو اس کا مطلب ہم اپنے حساب کتاب میں غلطی کر رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر سلمان شاہ، حفیظ پاشا اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔
مفتاح اسماعیل نے کہا کہ پی آئی اے ہر سال 45 ارب روپے کا نقصان کرتی ہے،ہم ہر تین ماہ بعد نظام بدلنے اور اس میں تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے بہت سی چیزیں متاثر ہوتی ہیں،ہمارا گورننس سٹرکچر جمہوری دورہو یا مارشل لاء کا دور ہمیشہ کمزور رہا ہے،اگر بھارت اور بنگلہ دیشن کی سیونگ ہم سے زیادہ ہے تو اس کا مطلب ہم اپنے حساب کتاب میں غلطی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان میں کرنسی کے گرنے کا خطرہ رہتا ہے اس لئے لوگوں کے پاس جو پیسے ہوتے ہیں وہ خرچ کر لیتے ہیں اس لئے سیونگ کم ہوتی ہے۔ہماری ایکسپورٹ اس لئے نہیں بڑھ رہی کہ ہم باہر سے پیسے لیناچاہتے ہیں۔ ہم نے اپنے دور میں 1499 ارب روپے سود کی مد میں اداکئے، حکومت پاکستان کا قرضہ پر سود کی رقم اب 3 ہزار ارب سے زائد ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل ضیا ء کے دور میں 15 ملین بیلز کاٹن ہوتی تھیں اب 9 ملین بیلز ہوں گی،ہم اگر حقیقی درست زرعی پالیسی بنا لیں تو بہت سے مسائل حل سکتے ہیں اوریہ کوئی سیاسی معاملہ نہیں ہے،صنعتکاروں کے پاس حکومتی سطح پر رسائی ہوتی ہے تو وہ فائدہ اٹھا لیتے ہیں لیکن کسان اس کے منفی اثرات برداشت کرتا ہے۔ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا کہ چالیس سال سے ہم جنگ میں مصروف رہے ہیں،دنیااپنے آپ کو ریفارمز کی طرف لے گئیں لیکن ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا،بزنس کے حالات سے 2007 سے 2019 تک مزید بیگاڑ پیدا ہوا،ہماری آبادی دنیا کی چھٹی بڑی آبادی ہے اور ورکس فورس دنیا کی 11 ویں فورس ہے لیکن ان کے پاس نوکریاں نہیں ہیں۔
2007 میں پبلک ڈیٹ ٹو جی ڈی پی 57 فیصد پر آ گیا،2019 میں ہمارا قرضہ جی ڈی پی کے مقابلے میں 85 فیصد ہو گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم قرضے لے کر حکومت چلا رہے ہیں،ان مسائل پر قابو پانے کے لئے ہمیں سرمایہ کاری کے ماحول کو سازگار بنانا ہوگا،گورننس ریفارمز بہت مشکل ہوتی ہیں اس کے لئے سخت فیصلے لینا پڑتے ہیں،پاکستان کی 60 فیصد آبادی دیہی اکانومی سے وابستہ ہیلیکن آج تک اس میں ریفارمز نہیں ہوئیں،جو ادارے ایوب کے زمانے میں بنیں وہ ناپید ہو چکے ہیں،2007 میں لوگ سرمایہ کاری کرنے کے لئے ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے تھے،سرمایہ کاری کو ہم نے کبھی ایسے سپورٹ نہیں کیا،ہمارا آئی ایم ایف پروگرام سرمایہ کاری پر مرکوز نہیں بلکہ ٹیکس کولیکشن پر ہے،آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے ہمیں سرمایہ کاری حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے،ہم بنگلہ دیشن سے زیادہ ریونیو اکٹھا کر رہے ہیں،
ہم اس موجودہ پروگرام میں حکومتی سرمایہ کاری کے ذریعے اپنے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں،جب تک نجی سرمایہ کاری نہیں ہو گی اس وقت تک نوکریاں پیدا نہیں ہوں گی،چین کا لیبر ریٹ پاکستان کے مقابلے میں 9 فیصد زیادہ ہے،اب ہم سی پیک سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ حفیظ پاشا نے کہا کہ ہمارے جو اشاریے ہیں اس میں کچھ خامیاں بھی ہیں لیکن وہ اتنے برے بھی نہیں جو نظر آ رہے ہیں۔ایک زمانے میں 20 فیصد سرمایہ کار کی شرح تھی،225 ارب ڈالر ہم نے دہشتگردی کے خلاف جنگ سے نقصان اٹھایا،اس جنگ پر خرچ ہونے والی رقم سے سرمایہ کاری اور سیونگ پر منفی اثر پڑا۔جب کرائسس ہوتا ہے تو پتہ نہیں کیوں آئی ایم ایف سے بات کرنے کے لئے ایک خوبصورت چہرے کی ضرورت ہوتی،وزیر خزانہ حقیقی معنوں میں منتخب عوامی نمائندہ ہونا چاہیے،ہم جیسے ٹیکنوکریٹس نہیں چاہتے کہ وہ یہ ذمہ داری سنبھالیں،تبدیلی لانے والی حکومت نے حقیقی معنوں میں منتخب وزیر خزانہ لے کر آئی لیکن آٹھ ماہ بعد ہٹا دیا۔