کراچی (این این آئی)سندھ میں گڈز ٹرانسپورٹ کی ہڑتال چھٹے روز میں داخل ہو گئی ہے، حکومتی ہٹ دھرمی نے سرکاری خزانے کو 21 کروڑ کا دھچکا لگا دیا۔ اندرون ملک سامان کی ترسیل بند ہے جبکہ کراچی کی دونوں بندرگاہوں پر تجارتی سرگرمیاں معطل ہیں۔ ہڑتال کے باعث مال بردار ٹرکوں کے اڈے پر گہرا سناٹا چھایا ہوا ہے،
آدم نہ آدم زاد کچھ نظر آتا ہے تو کنٹینر اور ٹرکوں کا انبار۔ 6 دن سے ملک بھر میں تیل کی ترسیل ہو سکی نہ سیمنٹ، کوئلے، کھاد اور غذائی اجناس کا سامان شہر سے باہر جاسکا اور آج بھی اس کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ پورٹ پر کام بند ہونے سے کوئی برتھ بھی خالی نہیں، کھلے سمندر میں بھی 10 جہاز اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ برآمدی اشیا لے جانے والے 4 جہاز برتھ نہ ملنے کے سبب خالی واپس جاچکے ہیں۔ ٹرانسپورٹ ہڑتال کے باعث 21 کروڑ روپے سے زائد کے برآمدی آرڈرز منسوخ ہونے کا خدشہ ہے۔ کینو، آلو، پیاز کے 1500 کے لگ بھگ کنٹینرز سندھ اور پنجاب کی سڑکوں پر کھڑے سڑنے لگے۔ سبزیاں اور پھل روس، سنگاپور، ہانگ کانگ، دبئی، بنگلادیش، قطر، کینیڈا، عمان اور دیگر ممالک بھیجے جارہے تھے۔ تاجروں نے ہڑتال کو برآمدات کے لیے خطرہ قرار دے دیا، ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال سے ملک کی برآمدات بری طرح متاثر ہے جبکہ حکومت کی جانب سے ہڑتال ختم نہ کرانے کی وجہ سے برآمد کنندگان، ٹرانسپورٹرز بلکہ سرکاری خزانے کو بھی شدید دھچکا پہنچا ہے۔ ہڑتال کے باعث ملکی برآمدات بڑھانے کے لیے پی ایف وی اے کے برآمد کنندگان کی طرف سے کی جانے والی تمام کوششیں بھی بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ کینو، آلو اور پیاز کے 1500 سے زائد کنٹینرز اب بھی پنجاب، سندھ کراچی بندرگاہ تک جاتے ہوئے راستے میں کھڑے ہیں اور ان کی مالیت 15 لاکھ امریکی ڈالر بتائی جاتی ہے۔ ان میں موجود مال کے خراب ہونے کے خطرات لاحق ہیں لیکن ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال کے خاتمے اور ایکسپورٹس میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے کوئی کوششیں نہیں کی گئیں۔