اسلام آباد(این این آئی) قومی اسمبلی کو بتایاگیا ہے کہ اے جی پی آر میں مسلسل23 سال تک19 ویں گریڈ میں رہنے والے کسی افسر کا ریکارڈ نہیں،بچے کی پیدائش پر والد کی چھٹی کی سہولت وفاقی حکومت کے ملازمین کو حاصل نہیں، قانون سازی کے بعد اطلاق ہو سکے گا۔
خزانہ ڈویژن کے پاس31 گاڑیوں پر گزشتہ پانچ سال میں 4 کروڑ 68 لاکھ روپے کے اخراجات آئے،موجودہ حکومت کے دور میں ایف بی آر میں 1430 ملازمین بھرتی ہوئے، ایم ایل ون سمیت سی پیک منصوبوں کی کل مالیت 50 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ جمعرات کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران پارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ 1994ء سے 2017ء تک مسلسل 19ویں گریڈ میں رہنے والے کسی افسر کا ریکارڈ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2004ء سے لے کر اب تک ملازمین سے متعلقہ ڈیٹا کو سافٹ ویئر ایس اے پی سسٹم میں برقرار رکھا جارہا ہے۔ علی محمد خان نے ایوان کو بتایا کہ وفاقی حکومت کے ملازمین کو بچے کی پیدائش پر پدری رخصت کی سہولت حاصل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں سینٹ میں ایک بل پیش ہوا ہے۔ وہاں سے منظوری کے بعد جب یہ قومی اسمبلی میں آئے گا اور قانون سازی کی صورت میں ہی بچے کی پیدائش پر ماں کے ساتھ ساتھ والد کو چھٹی دی جاسکے گی۔پارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان نے بتایا کہ 31گاڑیوں میں سے 28 گاڑیاں ڈویژن کی اپنی ہیں، اس کے علاوہ مشیر خزانہ‘ پارلیمانی سیکرٹری اور ڈی جی آئی ای آر یو 3 گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں۔
ملٹری فنانسنگ کے پاس تین گاڑیاں ہیں۔ آڈیٹر جنرل پاکستان کے پاس 198 ‘ کنٹرولر جنرل آف اکائونٹس کے پاس 60 ‘ ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل سیونگز کے پاس 61‘ سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن کے پاس 14 اور مسابقتی کمیشن کے پاس سات گاڑیاں موجود ہیں اس کے علاوہ زرعی ترقیاتی بنک کے پاس 54‘ ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے پاس دس اور ایس ایم ای بنک کے پاس دس گاڑیاں ہیں۔ نیشنل بنک کے پاس پول گاڑیوں کی تعداد 58 ہے۔
فرسٹ ویمن بنک کے پاس 8 گاڑیاں ہیں۔علی محمد خان نے بتایا کہ موجودہ حکومت کے دور میں خزانہ ڈویژن میں تین‘ آڈیٹر جنرل آف پاکستان میں 57‘ کنٹرولر جنرل آف اکائونٹس میں 674‘ پاکستان منٹ میں ایک‘ وفاقی دفتر خزانہ میں 81 اور ایف بی آر میں 1430 ملازمین کو بھرتی کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان منٹ میں افسران کی تعیناتی کی اہلیت سے متعلق نیا سوال لایا جائے۔ اجلاس کے دور ان بی این پی کے ہاشم نوتیزئی نے کہاکہ بلوچستان میں دو سڑکوں کا افتتاح نوازشریف حکومت کرچکی موجودہ حکومت نے پھر انہی سڑکوں کو سی پیک کا نام دے دیا۔
ان سڑکوں پر بھی کام نہیں ہورہا ہے۔ وزارت منصوبہ بندی نے کہاکہ ایم ایل ون سمیت سی پیک کی کل مالیت 50ارب ڈالر ہے ،تیرہ منصوبے گیارہ ارب ڈالر سے مکمل ہوچکے ہیں، تیرہ منصوبے اٹھارہ ارب ڈالر سے زیر تکمیل ہیں، اکیس ارب ڈالر کے منصوبوں پر کام کا آغاز ہونا باقی ہے۔وزارت خزانہ نے بتایاکہ ملک بھر میں 2018ء سے 2020ء تک 11.1 سے 14.9 فیصد تک مہنگائی ریکارڈ کی گئی، میکرو اکنامک عدم توازن کو درست کرنے کے لیے زائد المعیاد گیس اور بجلی کی قیمتوں میں ردوبدل کے مشکل فیصلوں سے مہنگائی بڑھی۔
شرح سود میں اضافہ، پام آئل، سویابین، خام تیل، دالوں وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، ٹی آئی حکومت نے 1.5 بلین روپے کی سستی روٹی کی فراہمی کے لئے تندور پر چھوٹ فراہم کی، 26.5 ارب روپے کی سبسڈی 300 سے کم بجلی یونٹس استعمال کرنے والوں کو دی گئی۔وزارت خزانہ نے کہاکہ حکومت عوامی ریلیف کے لیے سستا بازار اور یوٹیلیٹی سٹورز کے نیٹ ورکس کو توسیع دے رہی ہے، وزیراعظم کی ہدایت پر یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کو 5 ضروری اشیاء صرف پر 6 ارب روپے فراہم کئے گئے ہیں۔