اسلام آباد(این این آئی)سینیٹ کی خصوصی کمیٹی نے اینٹی منی لانڈرنگ کیسز میں دائرہ اختیار سے متعلق بریفنگ کے لیے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے واجد ضیا کو طلب کر لیا ہے جبکہ سینیٹر محمد جاوید عباسی نے کہا ہے کہ ہمارا موجودہ میکانزم ٹھیک نہیں ہے،بے شمار کیسزمس کنڈکٹ کے پڑے ہوتے ہیں ججز اُن کو اٹھاتے ہی نہیں ہمیں مختلف ممالک میں رائج ماڈل کا پہلے جائزہ لینا چاہئے،
امریکہ میں بہترین ماڈل اختیار کیا گیا ہے۔ قانونی اصلاحات کے حوالے سے تشکیل دی گئی ایوان بالاء کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس کنونیئرکمیٹی سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی سربراہی میں جمعہ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔سپیشل کمیٹی کے اجلاس میں پارلیمنٹ کے ذریعے اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے مواخذہ کا میکانزم، اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010کے حوالے سے نیب کے تفتیش کے حوالے سے اختیارات کے علاوہ عوامی مقاصد کیلئے سیکشن فور لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1894 کے تحت زمین حاصل کرنے اور اس کیلئے معاوضہ دینے کے طریقہ کار کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز بیرسٹر محمد علی خان سیف، محمد جاوید عباسی اور انوار الحق کاکڑ کے علاوہ ڈپٹی ڈرافٹ مین عابد علی، جوائنٹ سیکرٹری وزارت داخلہ ڈاکٹر مرزا علی مقصود اور ڈسٹرکٹ کولکٹر اسلام آباد وسیم احمد خان نے شرکت کی۔ اینٹی منی لانڈرینگ ایکٹ 2010کے حوالے سے کنونیئرکمیٹی سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ دیکھا جائے کہ کن کن کیسز میں اینٹی منی لانڈرینگلاگو ہوتی ہے اور اس حوالے سے نیب اور ایف آئی اے کے پاس کیا اختیارات ہیں۔ اینٹی منی لانڈرینگ اُن کیسز میں شامل ہوتی ہے جن میں کرپشن ہو دیکھا جائے کہ ایف آئی اے اور نیب کا دائر کار کہاں تک ہے۔ چیئرمین نیب اور ڈی جی ایف آئی اے کمیٹی کو آئندہ اجلاس میں آگاہ کریں انہوں نے کہا کہ اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان گرے لسٹ میں ہے۔
گرے لسٹ میں کن وجوہات کی وجہ سے ہے اور اس کے لئے کون سے قوانین اور رولز ہیں بہتریہی ہے کہ آئندہ اجلاس میں چیئرمین نیب، وائس چیئرمین نیب، ڈی جی ایف آئی اے اور سیکرٹری خزانہ کمیٹی کو معاملات بارے تفصیلی آگاہ کریں۔سینیٹر محمد جاوید عباسی نے کہا کہ اس ایکٹ کے حوالے سے جو رولز بنائے گئے ہیں اُن کو بھی دیکھا جائے۔ پارلیمنٹ کے ذریعے اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے مواخزے کے میکنزم کے حوالے سے کنونیئرکمیٹی سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ
وزارت قانون سے اس حوالے سے پہلے تفصیلی بریفنگ حاصل کی جائے سیکرٹری وزارت قانون معاملات کے حوالے سے کمیٹی کو آئندہ اجلاس میں تفصیل سے بریف کریں۔سینیٹر محمد جاوید عباسی نے کہا کہ ہمارا موجودہ میکنزم ٹھیک نہیں ہے بے شمار کیسزمس کنڈکٹ کے پڑے ہوتے ہیں ججز اُن کو اٹھاتے ہی نہیں ہمیں مختلف ممالک میں رائج ماڈل کا پہلے جائزہ لینا چاہئے۔ امریکہ میں بہترین ماڈل اختیار کیا گیا ہے۔ سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ دنیا بھر میں یہ پریکٹس ہے کہ ایسے قوانین بناتے وقت متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیا جا تا ہے۔
سول سوسائٹی، میڈیا،بار کونسل اور بار اسوسی ایشن سے بھی رائے لینی چاہئے۔ کنونیئر کمیٹی نے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ پہلے سیکرٹری قانون سے بریفنگ حاصل کی جائے اور پھر اسٹیک ہولڈرز کی رائے حاصل کرکے جامع قانون بنانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ، انڈیا، فرانس اور دیگر ممالک میں رائج ماڈل کا بھی جائزہ لے کر پھر ترمیم کی جائے تو نمایاں بہتری آ سکتی ہے۔پبلک مقاصد کیلئے سیکشن فور کے لینڈ ایکوزیشن ایکٹ 1894 کے تحت زمین کے حصول اور معاوضے کی ادائیگی کے میکنزم کے حوالے سے کنونیئر کمیٹی سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ
موجودہ نظام سے عوام کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے وزارت داخلہ اس حوالے سے موثر تجاویز تیار کر کے کمیٹی کو آگاہ کرے۔ڈسٹریکٹ کولکٹر اسلام آباد وسیم احمد خان نے کمیٹی کو بتایا کہ سیکشن فور میں موضعے اور خسرے بنائے جاتے ہیں پھر ایل ای سی کی ٹیم کو حق ملتا ہے کہ زمین کا سروے کرے، سروے کر کے جانچ کرے کہ یہ پبلک مقاصد کے لئے ہے بھی اور اس کے بینیفشری بھی بہت زیادہ ہوں اس کے بعد پروسیجر شروع کیا جاتا ہے عدالت میں بھی بے شمار کیسز میں پبلک مقاصد کو دیکھا جاتا ہے پھر دسٹریکٹ پرائس کمیٹی معاوضہ مقرر کرتی ہے اور بلٹ ان پراپرٹی کا جائزہ پی ڈبلیو ڈی کی ٹیم لگاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں بہت زیادہ مسئلہ ہے کہ زمین تو پہلے ایکوائر کر لی جاتی ہے مگر معاوضہ بہت دیر بعد دیا جاتا ہے اور جب معاوضہ دینے لگتے ہیں تو لوگ موجودہ ریٹ کے مطابق مطالبہ کرتے ہیں۔سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ سیکشن فور کے تحت جہاں زمین حاصل کی جا رہی ہوتی ہے یہ بھی جائزہ لینا چاہئے کہ یہ زمین جس مقصد کیلئے حاصل کی جا رہی ہے وہ اُس کے مطابق بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبوں میں لوگ بہت خوار ہو رہے ہیں۔ کنونیئر کمیٹی نے کہا کہ سیکشن فور کے تحت زمین حاصل کرنے کیلئے ڈی سی ریٹ نہیں ہونا چاہئے اور سیکشن فور کے بعد ادائیگی کیلئے بھی ایک وقت مقرر ہونا چاہئے اور اس کے لئے مارکیٹ ریٹ ہونا چاہئے ایسی ترمیم لائی جا ئے جس سے لوگوں کو اُن کا آئینی حق مل سکے۔ انہوں نے داخلہ حکام کو اس حوالے سے تجاویز تیار کر کے پندرہ دن کے اندر کمیٹی کو فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔