اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)جاوید چوہدری اپنے کالم ’’ہم آخر کرنا کیا چاہتے ہیں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔سپریم کورٹ نے 2009ءمیں جنرل پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ چلانے کا حکم جاری کیا تھا‘ آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی عقل مند تھے‘ یہ اپنی اوقات جانتے تھے چناں چہ یہ فائل کو دراز میں رکھ کر بھول گئے‘ میاں نواز شریف آئے اور یہ ہیوی مینڈیٹ اور ووٹ کی عزت جیسی
غلط فہمیوں کا شکار ہوگئے‘ فائل کھولی‘ سپریم کورٹ سے سپیشل بینچ بنوایا اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف کارروائی شروع کر دی‘ میاں نواز شریف جنرل پرویز مشرف کو سیاست دان اور سابق صدر سمجھ بیٹھے تھے۔یہ اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے تھے کہ لال مسجد اور نواب اکبر بگٹی جیسی غلطیوں کی وجہ سے جنرل مشرف فوج میں پاپولر نہیں رہے اور اب ان کے ساتھی بھی انہیں ناپسند کرتے ہیں لیکن فائل کھلنے کی دیر تھی‘ میاں نواز شریف کی غلط فہمی دور ہو گئی‘ اس کے بعد کیا کیا ہوا‘ یہ اب تاریخ ہے‘ ہم اگر آج خوابوں اور غلط فہمیوں کی دنیا سے نکل کر چند لمحوں کے لیے حقائق میں آ کر دیکھیں تو جنرل پرویز مشرف کا کیس بھی ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہو گا۔ملک میں اس وقت تین بڑی سیاسی جماعتیں ہیں‘ پاکستان پیپلز پارٹی‘ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف‘ آپ چند لمحوں کے لیے اپنی یادداشت کی ٹیپ ری وائینڈ کریں‘ آپ اپنے کانوں سے عمران خان کو ”جنرل پرویز مشرف ہائی ٹریژن کا مجرم ہے“کہتے سنیں گے‘ آپ کو عمران خان ہر جگہ یہ کہتے نظر آئیں گے ”میں اگر اقتدار میں آیا تو میں جنرل پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلاؤں گا“ پاکستان تحریک انصاف کا پارٹی موقف بھی یہی تھا۔پاکستان پیپلز پارٹی جنرل پرویز مشرف کو محترمہ بے نظیر بھٹو کا قاتل بھی سمجھتی تھی‘ آپ پارٹی قیادت کی بارہ سال کی تقریریں نکال کر دیکھ لیں‘ یہ لوگ آپ کو ہر جگہ جنرل مشرف کا نام لیتے دکھائی دیں گے اور پیچھے رہ گئی ن لیگ تو یہ جنرل پرویز مشرف کا مقدمہ لے کر عدالت گئی تھی‘ میاں نواز شریف نے اس مقدمے کے لیے بہت بھاری قیمت بھی
ادا کی تھی لیکن تینوں پارٹیوں کی شبانہ روز محنت اوردعاؤں کے بعد جب یہ مقدمہ 17 دسمبر کو منطقی نتیجے تک پہنچا تو کیا ہوا؟ یہ تینوں پارٹیاں 17 دسمبر کی سہ پہر خوش تھیں۔ن لیگ اسے اپنی کام یابی سمجھ رہی تھی‘ پاکستان پیپلز پارٹی عدلیہ کو داد دے رہی تھی اور پاکستان تحریک انصاف شادیانے بجا رہی تھی‘ وزراءایک دوسرے کو مبارک باد پیش کر رہے تھے مگر پھر شام سوا چھ بجے
اچانک ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی طرف سے فیصلے پر ردعمل سامنے آگیا اور چند منٹوں میں صورت حال بدل گئی‘ پاکستان پیپلز پارٹی‘ ن لیگ اور پاکستان تحریک انصاف تینوں پارٹیاں میڈیا اور سوشل میڈیا سے غائب ہو گئیں‘ حکومت نے بھی اپنے ترجمانوں کو فیصلے پر تبصرے سے روک دیا۔ن لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی نے چپ کا روزہ رکھ لیا اور وکلاءنے تفصیلی
فیصلہ آنے تک گفتگو سے انکار کر دیا‘ پارٹیاں ٹیلی ویژن شوزتک سے غائب ہو گئیں‘ تفصیلی فیصلے کے دن بھی یہی ہوا‘ پورے ملک کا فوکس پیرا گراف 66پر آ گیا‘ آپ پچھلے چار دن کی کارروائی اور بحث بھی دیکھ لیں‘ ملک کا کوئی شخص‘ کوئی ادارہ فیصلہ ڈسکس نہیں کر رہا‘ بحث کا صرف ایک ہی محور ہے اور وہ ہے پیرا گراف66‘ آپ خوف کا عالم ملاحظہ کیجیے‘ میاں نواز شریف
اور مریم نواز تک فیصلے پر خاموش ہیں‘ کیا اس کے بعد بھی کوئی غلط فہمی رہ جاتی ہے؟ جی نہیں!ہمیں اب فکری مغالطوں سے نکل آنا چاہیے‘ ہمیں اب حقائق کو حقائق مان لینا چاہیے اور حقائق یہ کہتے ہیں عمران خان اپنا پورا زور لگانے کے باوجود میاں نواز شریف‘ میاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری کو قید میں نہیں رکھ سکے‘ میاں برادران لندن میں بیٹھے ہیں اور آصف علی زرداری کے
لیے ائیر ایمبولینس بک کرائی جا رہی ہے‘ حکومت پندرہ دن سے دعویٰ کر رہی ہے ہم مریم نواز کو باہر نہیں جانے دیں گے جب کہ ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے مریم نواز بھی لندن ضرور جائیں گی اور یہ اس وقت تک وہاں رہیں گی جب تک یہ خاموش رہیں گی۔مولانا فضل الرحمن تک محتاط ہیں‘ یہ بھی الیکشن میں دھاندلی کے ذمہ داروں کا نام نہیں لیتے‘ یہ بھی انہیں ”منے کا ابا“ کہتے ہیں‘ ن لیگ کے اپنے ایم این اے اور ایم پی اے حقائق کو ”محکمہ زراعت“ کا نام دیتے ہیں‘احسن اقبال بچے تھے‘ یہ حقائق سے آنکھیں
چرا رہے تھے لہٰذا یہ بھی آج شاہد خاقان عباسی بن چکے ہیں‘ عمران خان بھی غلط فہمی کا شکار ہیں‘ ان کو یہ حقیقتیں نظر نہیں آ رہیں‘ یہ جتنی جلد یہ حقیقتیں جان لیں گے ان کے لیے اتنا ہی بہتر ہو گا ورنہ دوسری صورت میں ہواؤں کا رخ بدلتے دیر نہیں لگے گی بس چیف الیکشن کمشنر کا فیصلہ ہونے کی دیر ہے اور محمودوایاز دونوں برابر ہوجائیں گے۔عمران خان شایدیہ ساری حقیقتیں مان لین لیکن
ان کے باوجود ایک حقیقت اور بھی ہے‘ ہم بدقسمتی سے اس حقیقت کو فراموش کربیٹھے ہیں اور وہ حقیقت ہے معیشت‘ ہمیں جلد یا بدیر ماننا ہوگا ریاستیں طاقت سے نہیں چلتیں‘ معیشت سے چلتی ہیں اور معیشت خوف میں نہیں پنپتی‘ اس کے لیے قانون کی زمین‘ انصاف کی ہوا اور بے خوفی کی روشنی چاہیے ہوتی ہے اور ہم ہر روز اپنے حصے کا سورج‘ اپنے حصے کی ہوا اور اپنے پاؤں کی مٹی برباد کرتے چلے جا رہے ہیں‘ ہم دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں‘ہمارا سفر پاتال کی طرف جاری ہے‘ ہم روز اس کی سپیڈ بھی بڑھا دیتے ہیں‘ مجھے سمجھ نہیں آتی ہم آخر کرنا کیا چاہتے ہیں؟