چیزوں کو سمجھنے کا ایک طریقہ پزل بھی ہے‘ آپ واقعات کو پزل سمجھیں اور پزل کے مختلف حصے آپس میں جوڑ دیں‘ ہر چیز (کھل) کر آپ کے سامنے آ جائے گی‘ میں ابھی آپ کے سامنے تین کلپس رکھوں گا‘ آپ ان کلپس کو(سنیں)‘ یہ آپ کو مستقبل کا نقشہ پیش کرتے نظر آئیں گے (ساٹس‘ وزیراعظم+چیف جسٹس+چیئرمین نیب) ہم اگر ۔۔ان میں مولانا فضل الرحمن کے کلپس کو بھی شامل کر لیں
تو بات مزید واضح ہو جائے گی‘بہرحال آپ دیکھ لیں وزیراعظم کی خواہش کے عین مطابق سپریم کورٹ نے طاقتوروں کا طعنہ ختم کر دیا‘ ملک میں بڑے اور چھوٹے اور طاقتور اور کمزور کو برابر کر دیا‘ صرف ایک کسر باقی ہے بس مالم جبہ اور بی آر ٹی کے کیس کھلنے کی دیر ہے اور ہوائوں کا رخ واقعی بدل جائے گا‘ ہم آج کے ایشو کی طرف آتے ہیں‘ آج خصوصی عدالت نے جنرل پرویز مشرف کو آرٹیکل چھ کے تحت سزائے موت (سنا) دی‘ یہ پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین کیس تھا‘ عدالت اس فیصلے سے پہلے چھ سال تک جنرل مشرف کو اپنی صفائی کا موقع دیتی رہی ۔۔لیکن جنرل صاحب نے اپنا بیان ریکارڈ نہیں کرایا‘ ۔۔اس فیصلے پر ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے پریس ریلیز جاری ہوئی‘ ۔۔ان کے مطابق(سلائیڈ) جنرل (ر) پرویز مشرف آرمی چیف‘ چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور صدرپاکستان رہے ہیں‘ انہوں نے چالیس سال سے زیادہ پاکستان کی خدمت کی اور ملک کے دفاع کے لیے جنگیں لڑی ہیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کسی صورت بھی غدار نہیں ہو سکتے‘ کیس میں آئینی اور قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے‘ پرویز مشرف کو اپنے دفاع کا بنیادی حق بھی نہیں دیا گیا۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے یہ بھی کہا عدالتی کارروائی شخصی بنیاد پر کی گئی‘ کیس کو عجلت میں نمٹایا گیا ‘ افواج پاکستان توقع کرتی ہیں جنرل پرویز مشرف کو آئین پاکستان کے تحت انصاف دیا جائے گا۔کیا یہ فیصلہ اداروں کے درمیان ٹکرائو کا نقطہ آغاز ہے‘ کیا جنرل مشرف کو واقعی صفائی کا موقع نہیں دیا گیا اور حکومت کا ۔۔اس پر کیا موقف ہے‘ یہ سارے سوال ہمارے آج کے پروگرام کا ایشو ہوں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔