لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پرحملہ کرنے والے وکلاء کی گرفتاریاں شروع ہو گئیں ۔ اطلاعات کےمطابق پنجاب پولیس نے لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر عاصم چیمہ سمیت 15وکلاءکو گرفتار کرلیا ہے. دریں اثنا صوبائی دارالحکومت لاہور میں ڈاکٹروں اور وکلا ء کے درمیا ن جھگڑا شدت اختیار کر گیا،مشتعل وکلا ء کی بڑی تعداد نے ایمرجنسی کا دروازہ توڑ دیا۔
صوبائی وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان اور میڈیا نمائندوں کو بھی بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا، وکلاء نے ہسپتال کی ایمر جنسی اور دیگر شعبوں میں داخل ہو کربد ترین ہنگامہ آرائی کی اور شیشے اور فرنیچر توڑ دیا، پولیس موبائل کو نذر آتش کردیا گیا، وکلاء کی جانب سے احتجاج کے دوران ہوائی فائرنگ بھی کی گئی، وکلاء کی جانب سے ہسپتال پر پتھراؤ کے بعد پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ او رلاٹھی چارج کیا،پتھراؤ کی وجہ سے عام شہریوں کی گاڑیوں کو بھی شدید نقصان پہنچا،پولیس نے توڑ پھوڑ کرنے والے متعدد وکلاء کو گرفتار کر لیا، گرینڈ ہیلتھ الائنس کی کال پر ڈاکٹروں، پیرا میڈیکس اور نرسز نے بھی ہڑتال کر دی، وزیر اعظم عمران خان اوروزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے پی آئی سی میں پیش آنے والے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی جبکہ اسلام آباد میں موجود وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار اپنی تمام مصروفیات ترک کر کے واپس لاہور پہنچ گئے۔صورتحال کے پیش نظرپنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے آس پاس موجود مارکیٹ کو بند کروا دیا گیا اور رینجرز کی نفری بھی جائے وقوعہ پر پہنچ گئی۔ تفصیلات کے مطابق ڈاکٹروں کی جانب سے مبینہ طور پر اشتعال انگیز ویڈیو اپ لوڈ کرنے کے معاملے پر وکلاء نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر دھاوا بول دیا، ہسپتال کے اندر اور باہر توڑ پھوڑ کی، ڈنڈا بردار اور آئی سی یو اور آپریشن تھیٹر میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کی تاہم اس دوران ہسپتال کا عملہ اور ڈاکٹرز نے بڑی مشکل سے جان بچا ئی۔
وکلا ء نے پی آئی سی میں کھڑی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا، وکلاء نے الزام عائد کیا کہ ڈاکٹروں کی جانب سے سوشل میڈیا پر ویڈیواپ لوڈ کرتے ہوئے پی آئی سی آنے کا چیلنج کیا گیا جس پر بڑی تعداد میں وکلاء لاہور بارسے ریلی کی صورت میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کیلئے روانہ ہوئے جس کی وجہ سے شاہراہوں پر ٹریفک کا نظام معطل ہو گیا۔ وکلاء کے احتجاج کی اطلاع پر
پولیس کی بھاری نفری پی آئی سی کے باہر پہنچ گئی اور رکاوٹیں کھڑی کر کے مرکزی دروازے کوبند کر دیا گیا۔ وکلاء نے کچھ دیر تک ہسپتال کے باہر مخالفانہ نعرے بازی کی اور بعد ازاں مشتعل ہو کر مرکزی دروازے کو توڑدیا اور اندر داخل ہو گئے اورہنگامہ آرائی کرتے ہوئے توڑ پھوڑ کی جبکہ وکلاء کی جانب سے ہسپتال پر شدید پتھراؤ کیا گیا جس سے ایمر جنسی اور دیگر وارڈز کے
شیشے ٹوٹ گئے۔ اسی دوران ہسپتال میں ڈاکٹرز، پیرامیڈیکس اور نرسز اپنے جانیں بچانے کیلئے بھاگ کھڑے ہوئے۔ پولیس نے وکلاء کے پتھراؤ کے جواب میں آنسو گیس کی شیلنگ کی۔ ہسپتال کے اندر موجود ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکس نے بھی پتھراؤ شروع کر دیا جس کے بعد مشتعل وکلاء ہسپتال کے اندرداخل ہو گئے اور پی آئی سی کی ایمر جنسی اور دیگر شعبوں میں شیشے اور فرنیچر توڑنا شروع کر دیا
جبکہ مبینہ طو رپر مریضوں کے لواحقین کوبھی تشددکا نشانہ بنایا۔ وکلاء کے احتجاج اور پتھراؤ اور پولیس سے جھڑپوں کی وجہ سے پی آئی سی اور جیل روڈ میدان جنگ بنا رہا جبکہ موقع ملتے ہی لواحقین اپنے مریضوں کو وہاں سے دوسرے ہسپتال منتقل کرتے رہے۔ وکلاء کی جانب سے احتجاج کے دوران اسلحہ سے ہوائی فائرنگ بھی کی گئی جس کی فوٹیج منظر عام پر آ گئی۔
پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج اور شیلنگ کے دوران کئی وکلاء جیلانی پارک میں چھپ گئے تاہم پولیس نے ان کا تعاقب کر کے انہیں گرفتار کر لیا۔ وکلاء کی جانب سے پتھراؤ کی وجہ سے عام شہریوں کی گاڑیوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔مریضوں کے ساتھ آنے والے لواحقین بھی مشتعل ہو گئے اور انہوں نے وکلاء کو قابو کر لیااور ان کی درگت بنائی۔ اسی دوران صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان ہنگامہ آرائی کو
کنٹرول کرنے کی غرض سے پی آئی سی پہنچے تاہم مشتعل وکلاء نے انہیں بھی قابو کر لیا اور انہیں غلیظ گالیاں دیتے ہوئے بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ وکلاء کی جانب سے میڈیا نمائندوں اور ڈاکٹرز پر بھی تشدد کیا گیا۔فیاض چوہان کا کہنا تھا بیچ بچاؤ کرنے آیا تھا لیکن وکلاء کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ان کا کہنا تھا کسی سے ڈرنے والا نہیں ہوں، توڑ پھوڑ کرنے والے وکلاء کے
خلاف تادیبی کارروائی ہو گی۔صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا کہ آج انصاف پسند وکلاء بہت رنجیدہ اور دکھی ہوں گے۔ وکلاء نے ہنگامہ آرائی کے دوران پولیس موبائل کوبھی نذر آتش کردیا گیا جبکہ اس دوران میڈیا نمائندوں کوبھی تشدد کانشانہ بنایاگیا جبکہ نجی ٹی وی کی خاتون رپورٹر سے موبائل بھی چھین لیا گیا۔وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی پنجاب سردارعثمان بزدار نے
پی آئی سی میں پیش آنے والے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب سے رپورٹ طلب کر لی جبکہ اسلام آباد میں موجود وزیر اعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے واپس لاہور پہنچ گئے۔وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں وکلاء کی ہنگامہ آرائی کا نوٹس لیتے ہوئے سی سی پی او لاہور اور صوبائی سیکرٹری
سپیشلائزڈ ہیلتھ اینڈ میڈیکل ایجوکیشن سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا کہنا تھا کوئی بھی قانون سے بالا تر نہیں ہے، ہنگامہ آرائی کے ذمہ داروں کے خلاف قانون کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے۔انہوں نے کہا کہ امراض قلب کے ہسپتال میں ایسا واقعہ ناقابل برداشت ہے، مریضوں کے علاج معالجے میں رکاوٹ ڈالنا
غیر انسانی اور مجرمانہ اقدام ہے، پنجاب حکومت ذمہ داروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرے گی۔وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ہنگامہ آرائی کی تحقیقات کے لیے صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد، انسپکٹر جنرل پولیس، ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ اور سیکریٹری
سپیشلائزڈ ہیلتھ اینڈ میڈیکل ایجوکیشن بھی کمیٹی میں شامل ہیں۔کمیٹی وکلا کی ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کے واقعے کی انکوائری کر کے رپورٹ وزیراعلیٰ کو پیش کرے گی اور ہنگامہ آرائی کرنے والے وکلاء کا تعین کرے گی۔ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹریاسمین راشدبھی پی آئی سی پہنچیں اورڈاکٹروں اور مریضوں سے اظہار یکجہتی کیا۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء نے زبردستی علاج معالجہ معطل کیا،
ذمہ داروں سے کوئی رعایت نہیں برتیں گے اور ان کے خلاف قانون کے مطابق سخت ایکشن لیا جائے گا۔مذکورہ واقعے کے بعد لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر اور سیکرٹری پی آئی سی ہسپتال پہنچے اور وکلا ء کے ساتھ مذاکرات کرنے کی کوشش کی۔واقعہ کے بعد گرینڈہیلتھ الائنس کی جانب سے بھی ہڑتال کااعلان کردیا گیا۔وکلاء نے سول سیکرٹریٹ کے باہر بھی دھرنا دے کر احتجاج کیا اور نعر ے بازی کی۔ وکلاء نے جی پی او چوک میں بھی جمع ہو کر احتجاج کیا اور آج جمعرات کے روز مکمل ہڑتال کا اعلان کر دیا۔