لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک)اورنج میٹرو ٹرین کے حوالے سے سینئر صحافی سعید قاضی کا کہنا ہے کہ لاہور میں شروع ہونے والی اس سروس سے فائدے کی بجائے نقصان ہو گا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اورنج ٹرین دنیا کی مہنگی ترین ٹرین ہے جس کا روزانہ کی بنیاد پرنقصان تقریباً 3کروڑ روپے ہے ۔ اربوں روپے کی مدد میں چلنے والی اورنج ٹرین پر اڑھائی لاکھ لوگ سفر کریں گےاس رقم سے پنجاب حکومت
شوکت خانم جیسے 42اسپتال اور دس ہزار بہترین تعلیمی بنائے جا سکتے تھے ۔ معروف صحافی کا مزید کہنا تھا کہ یہ دنیا کی مہنگی ترین ٹرین ہے جس کا ایک کلومیٹر 6ارب روپے کا ہے جبکہ سالانہ اورنج ٹرین کی وجہ سے 14ارب روپے کا خسارا پرداشت کرنا پڑے گا ۔ دوسری جانب میٹر ٹرین کے ٹریک کو 35مقامات پر خطرناک قرار دیا گیا ہے جس کی ہنگامی طور پر مرمت کی گئی ۔ مقامی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق 4اکتوبر کو چینی کمپنی نورینکو کے انجینئر ز نے ٹرین کے آخری سٹاپ علی ٹائون رائے ونڈ کے قریب واقع ستون نمبر 336کے اوپر اور اس کے ارد گرد ٹریک کے کنکریٹ ہیڈ پر خطرناک دراڑیں پکڑ لیں جن کے باعث بائیںجانب کا گارڈر جھک گیا اور ریل لائن اور کنکڑیٹ ہیڈ کے درمیان 1سینٹی میٹر کا گیپ پیدا ہونے سے لائن ہوا میں معلق ہو گئی ۔ ذرائع کے مطابق وزیراعلیکو 22اکتوبر کے افتتاح کا گرین سگنل دینے والے صوبائی افسروں نے مبینہ طور پر منصوبے کی تھرڈ پارتی کے طور پر نگران آسٹرین کمپنی ٹی یو وی سے ٹریک کے فٹ ہونے کی انسپکشن رپورٹ بھی دی تھی لیکن چینی کمپنی کی انسپکشن میں یہ انکشاف ہوا کہ اگر اس حالت میں ہائی سپیڈ ٹرین کا افتتاح کر دیا جاتا تو یہ خطرناک ترین یا دوسرے لفظوں میں ’’موت کے سفر‘‘ کا ڑائل رن ہو سکتا تھا ۔ چینی کمپنی نے ستون نمبر 336ے گارڈ کے ٹیڑھے ہونے کی وجہ سول اورٹھیکدار کمپنی کی
کوتاہی بتایا جس نے گارڈ کی تعمیر ککے دوران نیچے جیک لگانے کی بجائے لکڑی کی سپورٹ استعمال کی لیکن اس نشاندہی کے باوجود سول ورکس کی ٹھیکدار کمپنی کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ۔ انسپکشن کے ذمے دار کمپنی ٹی یو وی کے انجینئرز وسیم نے کہا کہ ان کا معاہدہ بعض نکات تک محدود ہے جس کی انسپیکشن کی گئی ہے اور ستون336کے سلسلے میں بھی بروقت طے شدہ معاہدے کے مطابق
ذمے داری پوری کر دی گئی تھی ۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ چوبر جی چوک سے علی ٹائون رائے ونڈ کے تقریبا13کلو میٹر طویل ٹریک کے مختلف 36مقامات پر ٹریک اور کنکریٹ ہیڈ کے درمیان توازن قام رکھنے والے سفائریگل بیرن ناقص کوالٹی کے نکلےجن کو تبدیل کیے بغیر ٹرین چلانا خطرنا ک قرار دیا گیا ہے ۔ دریں اثنا جانب لاہور کی اورنج لائن ٹرین نے مکمل روٹ پر آزمائشی سفر آغاز کر دیا۔
اورنج لائن ٹرین ویئر ہائوس سے اسٹیشن نمبر 1 پر پہنچی جہاں سے وہ 35 منٹ کی تاخیر سے آزمائشی سفر پر اپنی منزل مقصود کی جانب روانہ ہوئی۔اس موقع پر وزیر ٹرانسپورٹ پنجاب جہانزیب خان کھچی اور وزیر اطلاعات پنجاب فیاض چوہان اسٹیشن پر موجود تھے۔بجلی سے چلنے والی اورنج ٹرین مکمل آٹومیٹک ہے، اس میں 200مسافروں کے بیٹھنے اور 800 کے کھڑے ہونے کی گنجائش ہے۔
اورنج ٹرین کا 25.4 کلو میٹر ٹریک ایلی ویٹیڈ جبکہ 1.72 کلومیٹر انڈر گرائونڈ ہے، 26 سٹیشنز میں سے 24 ایلی ویٹیڈ اور 2 انڈر گرائونڈ ہیں۔ ٹرین کی زیادہ سے زیادہ رفتار 80 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے مگر ٹرین اوسطا 34.8 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلے گی۔27 کلومیٹر کا سفر 45 منٹ میں مکمل ہوگا، روزانہ اوسطا 2 لاکھ افراد سفر کرسکیں گے۔ اورنج لائن میٹرو ٹرین روٹ کے 26 اسٹیشنز پر2000 سے
زائد پولیس افسران اور جوان ڈیوٹی پرتعینات کئے گئے۔اورنج ٹرین کو 3 ماہ تک آزمائشی طورپرچلا کراس کا مکینیکل، الیکٹریکل اوربریک سسٹم چیک کیا جائے گا اور شہریوں کو ٹرین پر سفر کیلئے ابھی مزید3 ماہ کا انتظار کرنا پڑے گا۔صوبائی وزیرٹرانسپورٹجہانزیب خان کھچی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اورنج لائن میٹروٹرین سے ملتان روڈ پر ٹریفک کا دبا کم ہوگا، ماحولیاتی آلودگی میں بتدریج نمایاں کمی آئے گی، اورنج لائن میٹرو ٹرین کو پاکستان کی پہلی الیکٹرک ٹرانسپورٹ ہونے کا اعزازبھی حاصل ہے،
میٹرو ٹرین پہلی مرتبہ پورے روٹ پر بجلی کے ذریعے چلائی جارہی ہے جبکہ اورنج لائن میٹرو ٹرین سی پیک کا مکمل ہونے والا پہلا ٹرانسپورٹ منصوبہ ہے۔یادرہے کہ اورنج لائن میٹرو ٹرین کا منصوبہ مسلم لیگ (ن) نے بنایا تھا اور اس منصوبے کو سی پیک میں شامل کیا گیا تھا، پاکستان اورچین کے درمیان مئی 2014 میں اورنج ٹرین بنانے کا معاہدہ ہوا تھا۔ ٹرین ڈیرہ گوجراں جی ٹی روڈ سے
علی ٹائون ٹھوکرنیازبیگ تک 27 کلومیٹر کا فاصلہ 27 اسٹیشنوں پر رکتے ہوئے 45 منٹ میں طے کرے گی۔ جس میں روزانہ کی بنیاد پرساڑھے 3 سے 4 لاکھ لوگ سفر کریں گے۔ اس منصوبے کو دسمبر2017 میں مکمل ہونا تھا، لیکن عدالتی حکم امتناعی اورحکومتوں کی تبدیلی کے باعث یہ منصوبہ 2 سال کی تاخیرکا شکار ہوا۔ اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ 4 سال ایک ماہ کے وقت میں مکمل ہوا تاہم اس میں لاگت 264 ارب روپے کی لاگت آئی۔