اسلام آباد (این این آئی) سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس میں سماعت کے دور ان آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق سمری سے عدالت کا نام نکالنے کی ہدایت کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے کہا آپ بوجھ خود اٹھائیں ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں ۔
یہ ہدایت چیف جسٹس نے جمعرات کوکیس کی سماعت کے دور ان دی ۔دور ان سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ سمری میں تو عدالتی کارروائی کا بھی ذکر کردیا گیا ہے، آپ بوجھ خود اٹھائیں ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں، اپنا کام خود کریں، ہمیں درمیان میں کیوں لاتے ہیں، عدالت کا نام استعمال کیا گیا تاکہ ہم غلط بھی نا کہہ سکیں۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تعیناتی قانونی ہے یا نہیں وہ جائزہ لیں گے، آج سے تعیناتی 28 نومبر سے کردی، تعیناتی اورتوسیع سے متعلق آرمی ریگولیشنزکی کتاب کو چھپا کرکیوں رکھا گیا، اس کتاب پرلکھا ہے کوئی غیرمتعلقہ شخص پڑھ نہیں سکتا، کیوں آپ نے اس کتاب کو سینے سے لگا کر رکھا ہوا تھا، بھارت اور دیگرممالک میں آرمی چیف کی تعیناتی اورمدت واضح ہے، اب عدالت میں معاملہ پہلی بار آگیا ہے تو واضح ہونا چاہیے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی قانون کے مطابق ہونی چاہیے، قانون میں تعیناتی کی مدت کہیں نہیں لکھی ہوئی۔اٹارنی جنرل نے اس پر مؤقف اپنایا کہ اگرمدت مقرر نا کریں تو تاحکم ثانی آرمی چیف تعینات ہوگا، مدت مکمل ہونے کے بعد جنرل ریٹائر ہوجاتا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ روز آپ کہہ رہے تھے جنرل ریٹائر نہیں ہوتا، واضح ہونا چاہیے جنرل کو پنشن ملتی ہے یا نہیں، پارلیمنٹ سے بہتر کوئی فورم نہیں جو سسٹم ٹھیک کرسکے۔اس موقع پر بینچ کے رکن جسٹس مظہر میاں خیل نے ریمارکس دیے کہ یہ بھی طے کرلیا جائے آئندہ توسیع ہوگی یا نئی تعیناتی۔