اسلام آباد (مانیٹرنگ دیسک) سینئر کالم نگار سہیل وڑائچ اپنے کالم ’’ابا جی بنام شہباز شریف‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔جونیجو نے یہ بھی کہا کہ شہباز نے اگر مریم کو پیچھے رکھنے کی کوشش کی تو ن لیگ مردہ ہو جائے گی اسے چاہئے کہ مریم کو آگے رکھے اور خود مہربان چچا، سرپرست اور اچھے مینجر کی طرح نیک نیتی سے سیاست کرے، اس کی قسمت میں جو ہے مل کر رہنا ہے اور جو
مریم کی قسمت میں ہے اسے بھی لاکھ پابندیوں کے باوجود مل کر رہے گا۔اگر انہوں نے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی کوشش کی تو پھر سیاست شریف خاندان سے نکل کر کہیں اور چلی جائے گی۔جانِ پدر!میں حمزہ کے حوالے سے پریشان ہوں، وہ ہر بار تکلیفیں سہنے کے لئے اکیلا رہ جاتا ہے، اسی سال خدا نے اسے بیٹی سے نوازا ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ وہ بیوی بچوں کے ساتھ وقت گزارتا مگر ہمارے ملک کی سیاست اس قدر خراب ہے کہ یا آپ جیل میں رہتے ہیں یا اقتدار میں درمیان میں کوئی جگہ نہیں ہے۔عباس کا بیٹا بھی مشکل میں گرفتار ہے، اسے ہر ہفتے فون کر کے خیریت پوچھ لیا کرو۔ عباس گلہ کر رہا تھا کہ شہباز نے ایک بار بھی میرے بیٹے کو فون کر اُس کی خیریت تک نہیں پوچھی۔نواز کی صحت کے حوالے سے کلثوم کافی پریشان ہے، کہہ رہی تھی کہ برطانیہ میں علاج کے بجائے بائو جی کو بوسٹن امریکہ میں لے جانا چاہئے اور اس میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔ ساتھ ہی تاکید کر رہی تھی کہ جب تک بائو جی مکمل ٹھیک نہ ہو جائیں سیاست کے بارے میں سوچیں بھی مت۔ اس کی خواہش ہے کہ مریم بھی بائو جی کے ساتھ ہی رہے۔ہر روز دعا کرتی ہے کہ مریم کو باہر جانے کی اجازت مل جائے مگر مجھے افواہ باز یہ بتا گیا ہے کہ سب کچھ طے ہو گیا تھا، مریم نے بھی نواز کے ساتھ ہی باہر جانا تھا مگر ضد خان اڑ گیا اور یوں طاقتوروں کی خواہش کے باوجود مریم کو روکنا پڑ گیا۔
افواہ باز یہ بھی کہہ رہا تھا کہ مریم باہر جاتی تو ضد خان کے لئے اچھا تھا، اسے سیاسی طور پر فری ہینڈ مل جاتا اور پھر کچھ کر کے دکھاتا۔بیٹے شہباز!آخر میں تمہیں نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ جیسے تم نے پہلے کئی بار بھائی کو چھوڑنے کی شرط پر اقتدار حاصل کرنے کی پیشکش رد کی اس بار بھی ایسا ہی کرنا، کہیں لالچ میں آ کر ہاں نہ کر بیٹھنا۔نواز کو باہر بھجوانے میں تمہارا کردار سب نے سراہا ہے
لیکن دوسری طرف یہ بھی یاد رکھنا کہ اصلی سیاست عوامی سیاست ہے۔ بیساکھیوں کے ساتھ ملنے والا اقتدار عارضی اور کمزور ہوتا ہے۔ تاریخ یہ نہیں دیکھتی کہ آپ کتنا عرصہ برسراقتدار رہے ہیں بلکہ یہ دیکھتی ہے کہ آپ کن ذرائع سے برسراقتدار آئے اور آپ نے عوام کے لئے کیا کیا۔بنو اُمیہ کا 90سال کا طویل اقتدار محرم کے صرف تین دنوں کی یاد نہ مٹا سکا اور بالآخر انہی تین دنوں کے
واقعات پر اُٹھے انقلاب نے بنو اُمیہ کا دھڑن تختہ کر دیا۔ جولیس سیزر کو بروٹس نے سینیٹ کی سیڑھیوں میں مار کر حب الوطنی کا نعرہ تو لگا دیا لیکن تاریخ نے بروٹس کو ایک سازشی دوست اور غدار کے نام سے ہی جانا۔ٹیپو سلطان نے اِس خطے میں پہلی مملکت خداداد کی بنیاد رکھی ٹیپو کو سازشیوں نے غداری سے مروا دیا مگر ٹیپو کے نام کو آج تک کوئی نہ مٹا سکا اور تو اور بھٹو اور بےنظیر کو مٹانے کے لئے کیا کیا نہ کیا گیا مگر اُن کے نام مٹ نہیں سکے۔یہ دونوں سیاست میں احترام ہی پاتے رہے اور تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جائیں گے۔ والسلام ابا جی۔ میاں محمد شریف