اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سنیئر صحافی ارشد وحید چوہدری اپنے کالم ’’پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔مولانا فضل الرحمٰن کی اسلام آباد سے پُراسرار واپسی، دو ماہ کے طویل عرصے بعد سول عسکری قیادت کی اہم ملاقات، نواز شریف کی عدالت کے ذریعے علاج کیلئے بیرون ملک روانگی۔
اتحادیوں کے بدلے تیور، وزیراعظم کی دو دن کی چھٹی اور اپوزیشن کے اہم رہنمائوں کا بیک وقت آئندہ سال ملک میں نئے الیکشن اور نئے وزیراعظم کا دعویٰ۔ معاملات یقیناً اتنے سادہ نہیں جتنے نظر آ رہے ہیں۔ حکومت کے اہم اتحادی چوہدری پرویز الٰہی کی طرف سے اس بیان نے کہ مولانا ایک مفاہمت کے ذریعے اسلام آباد سے واپس گئے ہیں اور یہ امانت ہے، بےیقینی کی فضا میں اضافہ کر دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے طرزِ سیاست سے واقف افراد جانتے ہیں کہ کوئی قدم اٹھانا تو دور کی بات وہ تو زبان سے لفظ بھی بہت سوچ سمجھ کر ادا کرتے ہیں اس لیے ان کا اپنے پیروکاروں کے ہمراہ وفاقی دارالحکومت تک پہنچنا اور تیرہ دن پُرامن احتجاج کے بعد اچانک واپس چلے جانا کسی منصوبہ بندی اور حکمتِ عملی سے خالی ہرگز نہیں ہوسکتا۔ مولانا کو کرائی گئی کسی یقین دہانی کا یقین اس لیے بھی ضروری ہے کہ جو رہنما ناقابلِ یقین حد تک اپنے کارکنوں کی بڑی تعداد کو اسلام آباد پہنچا سکتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ پلان بی کے تحت ملک کی شاہراہوں کو بند کرنے کیلئے مخصوص مقامات پہ صرف چند درجن افراد جمع کرے، یقیناً بےدلی سے پلان بی پہ عمل درآمد بھی ایک حکمتِ عملی کا حصہ ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے مولانا کے مٹھی بھر کارکنوں کو کسی اہم سڑک کو بلاک کرنے سے روکنے کی اجازت دینا بھی اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ معاملات ’’طے‘‘ پا چکے ہیں۔
اب صرف احتجاج کے نام پہ اپنے کہے پہ عمل کرنے اور وقت گزارنے پہ اکتفا کیا جا رہا ہے۔ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن ٹھوس لہجے اور مکمل یقین کے ساتھ کہ رہے ہیں کہ آئندہ سال ملک میں نئے انتخابات ہوں گے اور نئی اسمبلی وجود میں آئے گی۔ مولانا جس پرامن طریقے سے آئے تھے اسی افہام و تفہیم سے واپس جانے کے بعد سول اور عسکری قیادت کی اہم ملاقات ہوئی، اس ملاقات کی اہمیت اس لیے بھی بہت زیادہ تھی چونکہ یہ ماضی قریب کے برعکس دو ماہ کے طویل عرصے کے بعد ہو رہی تھی۔
دوسرا اس میں باڈی لینگویج بھی قدرے غیر معمولی دکھائی دی۔ گزشتہ چند دنوں میں پردے کے پیچھے جو کچھ ہوا یہ بھی اسی کے خلاف خاموش احتجاج ہی تھا کہ وزیر اعظم عمران خان جنہوں نے گزشتہ چودہ ماہ ملکی مسائل کے حل اور حکومتی کار کردگی کو بہتر بنانے کیلئے دن رات ایک کئے رکھے وہ اچانک دو دن کی چھٹی پہ بنی گالہ میں واقع اپنے گھر بیٹھ گئے۔ بھلے طفل تسلیوں کیلئے یہ کہا جائے کہ وزیر اعظم نے اپنے اہلخانہ کے ساتھ وقت گزارنا تھا اور انہیں بھی آرام کی ضرورت تھی اسلئے انہوں نے چھٹی کی تھی لیکن اقتدار کی غلام گردشوں تک رسائی رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ وزیر اعظم ہائوس سے دور بنی گالہ رہنے کا وقت خود بہت کچھ آشکار کر رہا ہے۔
اب بات کی جائے سابق وزیراعظم نواز شریف کی کورٹ کے فیصلے کے تحت بیان حلفی دے کر علاج کیلئے بیرون ملک روانگی کی تو اس معاملے میں بھی حکومت کے حصے میں سبکی اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں آیا، معاون خصوصی احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر اور اٹارنی جنرل انور منصور عدالتی فیصلے کو حکومتی موقف کی فتح قرار دے کر جتنا مرضی ڈیمیج کنٹرول کرنے کی کوشش کریں لیکن حکومت انڈیمنٹی بانڈ کو جس سیاسی فائدے کیلئے کیش کرانا چاہتی تھی اس میں اسے ناکامی سے دوچار ہونا پڑا ہے۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے جب شوکت خانم اسپتال کے ڈاکٹر کے ذریعے نواز شریف کی صحت کے حقائق کا پتہ کیا تو انہیں ادراک ہوا کہ ان کی حالت واقعی بہت تشویشناک ہے جس کے بعد نہ صرف انہوں نے نواز شریف کی صحت کے متعلق کوئی بھی منفی بات نہیں کی بلکہ انہوں نے پارٹی ترجمانوں اور رہنمائوں کو بھی روک دیا تھا۔ وہ نواز شریف کو بیرون ملک علاج کیلئے بھی غیر مشروط بھیجنے پہ راضی تھے لیکن عدالت سے نواز شریف کی طبی بنیادوں پہ ضمانت معطل ہونے کے بعد شہباز شریف کے بیٹے اور ان کی بہو نے سوشل میڈیا پہ فوری گیم چینجر سے متعلق جو بیانات داغ دئیےاور خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں اپنی معلومات کا اشارہ دے کر تحریک انصاف کو جس طرح خوف زدہ کر دیا اس نے وزیر اعظم کے معاونین اور مشیروں کو ان کے کان بھرنے کا موقع فراہم کر دیا۔
بانڈ کی شرط اور اسکے سیاسی فوائد کا حوالہ دے کر عمران خان کو قائل کر لیا گیا اور اس طرح وزیر اعظم جوپارٹی رہنمائوں کو خود صحت پہ سیاست نہ کرنے کی تلقین کر رہے تھے وہ بانڈ کے ذریعے خود سیاست کرنے پہ راضی ہو گئے۔ خواجہ آصف مسلم لیگ ن کے ان رہنمائوں میں شامل ہیں جو نہ صرف پس پردہ طے ہونے والے معاملات سے باخبر ہوتے ہیں بلکہ گزشتہ کچھ عرصے سے معاملہ سازی کی ان کوششوں میں مصروف پارٹی صدر شہباز شریف کے بھی بہت قریب ہیں بلکہ وہ خود بھی مزاحتمی بیانیہ ترک کر کے شہباز شریف کے ہاتھ پہ بیعت کر چکے ہیں اس لیے یقینا قومی اسمبلی کے فلور پہ ان کا یہ کہنا کہ پی ٹی آئی پہ آسمان گرنے والا ہے اور بہت جلد ملک میں نئے انتخابات ہوں گے۔
یہ بلا سبب یا محض اتفاق نہیں ہے۔ ان کے بعد احسن اقبال کے حوالے سے بھی یہ بیان سامنے آ چکا ہے کہ اگلے سال جون سے قبل شفاف الیکشن کو یقینی بنانے کیلئے عبوری حکومت کے قیام پہ ان کی جماعت تیار ہے۔ اسی سارے منظرنامے میں اگر حکومت کی اتحادی جماعتوں کے رہنمائوں کے بیانات کو دیکھا جائے تو وہ تحریک انصاف کے حکومتی جہاز کے بادبان کی حیثیت سے اس کی منزل کا پتہ دے رہے ہیں۔ اس صورتحال میں اپوزیشن تو جو فائدہ اٹھا رہی ہے حکومت کے اتحادی بھی کابینہ میں مزید وزارتوں کے ذریعے اپنا حصہ وصول کرنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں لیکن لو دو کی یہ سیاست کتنی دیرچل پائے گی اور پس پردہ جاری یہ کھیل مزید کتناعرصہ جاری رہےگا، پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔