عمران خان کو 50لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کے بیان دینے سے بہتر تھاکہ۔۔۔ آج ہر کوئی جگتیں ماررہا ہےسادہ سا سبق یہ ہے کہ ضروری نہیں اگر ز بان پر خارش ہو تو سرعام بیان خارج کردیا جائے۔ خارش زیادہ تنگ کرے تو کیا کرنا چاہیے ؟ حسن نثار نے کیا کہہ دیا

19  ‬‮نومبر‬‮  2019

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار حسن نثار نے اپنے کالم’’پی ٹی آئی اور ’’خاموشی‘‘ کی پریکٹس‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔سمجھ نہیں آتی پی ٹی آئی والوں کا مسئلہ کیا ہے۔ان کے پائوں زمین پر نہیں ٹکتے، زبانیں تالو سے نہیں لگتیں۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ جلتے کوئلے کھا کر سندھ کی سرخ مرچوں کا مربہ بطور سویٹ ڈش استعمال کرتے ہیں۔ کان ان کے قدیم سٹیم انجنوں سے زیادہ دھواں چھوڑے ہیں۔

انہیں نارمل کرنے کے لئے میری تجویز ہے کہدگلے پہنا کر، سر پہ اونی ٹوپیاں چڑھا کر کسی برفانی علاقہ میں چھوڑ دیا جائے۔ ٹھنڈے پڑ جائیں تو واپس بلالیں۔ سیاست میں تو گنڈا پور کی گیسودرازی بھی عجیب لگتی ہے لیکن قابل برداشت ہے جبکہ زبان درازی بالکل نہیں جچتی۔زبان لمبی اور عقل چھوٹی دیکھ کر وہ کریلے یاد آجاتے ہیں جو نیم پر چڑھ جاتے ہیں یا زبردستی چڑھادئیے جاتے ہیں۔ انہیں چاہئے اپنے لیڈر کی طرح خود کو ’’بریک‘‘ دیں۔ عمران خان نے مسلسل اعصاب شکن مصروفیات کے بعد دو دن کے لئے سرکاری اور پارٹی مصروفیات ترک کرنے کا جو فیصلہ کیا وہ بہت مثبت اور عمدہ ہے سو انہیں بھی چاہئے کہ زیادہ نہ سہی زبانوں کو ہی کچھ ریسٹ دے لیں۔نجانے کیوں میرا جی چاہتا ہے کہ میں گفتگو کی ان’’زندہ مشینوں‘‘ کو’’ خاموشی‘‘ کے بارے بریف کروں کہ زندگی میں زیادہ تر خاموشی بولنے سے کہیں زیادہ کارآمد ہوتی ہے۔ چپ رہنا اور مٹھ رکھنا حکمت عملی کا حصہ ہے مثلاً اگر ان کے گھر کی مثال ہی لے لیں کہ عمران خان اگر 50لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں زبان کے اوپر لانے کی بجائے دل کے اندر ہی رکھتے تو بہتر نہ تھا؟ آج ہر کوئی جگتیں ماررہا ہے،اگر یہ گھر بن جاتے ، جتنے بھی بن جاتے، خود بولتے اور واہ واہ ہوجاتی۔ نوکریاں ایک کروڑ کیا ایک لاکھ بھی مل جاتیں تو لوگ کس طرح صدقے واری جاتے لیکن اب؟سادہ سا سبق یہ ہے کہ ضروری نہیں اگر ز بان پر خارش ہو تو سرعام بیان خارج کردیا جائے۔ خارش زیادہ تنگ کرے تو باتھ روم میں گھس کر کوئی گیت گنگنالینا کئی گنا بہتر ہوگا۔ فائدہ ہو نہ ہو نقصان سے ضرور بچے رہو گے لیکن وہ پی ٹی آئی ہی کیا جو محو پرواز تیر کو خالی ہاتھ جانے دے۔ ان بیچاروں کا حال تو میرے اس شعر سے بھی گیا گزرا ہے؎زندگی مشکل تھی میں نے اس کو مشکل تر کیااک جھروکہ ہی جہاں کافی تھا میں نے در کیاشاعر لوگ تو ایسی بونگیوں بیہودگیوں سے یوں بچ نکلتے ہیں کہ ان کے پاس گنوانے کے لئے ہوتا ہی کچھ نہیں لیکن بھائی لوگو! تمہارے پائوں کے نیچے تو اقتدار کا بیڑا ہے۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…