اسلام آباد (این این آئی)سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں نے پی ایم ڈی سی کو تحلیل کرنے سے متعلق پی ایم سی آرڈیننس کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ آر ڈیننس کو واپس لیا جائے ،حکومت پی ایم سی آرڈیننس واپس لیکر قانون سازی کے زریعے اصلاحات لائے، قانون سازی آئینی و قانونی طریقہ کار کے مطابق پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے ذریعے ہونی چاہیے جبکہ سینیٹ میں قائد ایوان شبلی فراز نے
اپوزیشن کے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ آریننس کو کیسے غیر قانونی کہا جاسکتا ہے یہ آئین کا حصہ ہے، فیصلہ کر لیں آرڈیننس تسلیم کریں یا آئین میں ترمیم کر لیں۔ جمعہ کو چیئرمین صادق سنجرانی کی زیرصدارت سینیٹ کے اجلاس میں پی ایم ڈی سی کو تحلیل کرنے کے خلاف اپوزیشن کی تحریک التوا پر بحث کی گئی ۔راجہ ظفرالحق نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ پی ایم ڈی سی کا نیا آرڈیننس پہلے سے بھی برا ہے،پورے شعبہ کو ایک عذاب میں مبتلا کردیا گیا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ میڈیکل کالجوں کو اپنی مرضی کی فیسیں مقرر کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے،قانون سازی آئینی و قانونی طریقہ کار کے مطابق پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے ذریعے ہونی چاہیے۔راجہ ظفر الحق نے کہاکہ پی ایم ڈی سی کی جگہ نیا کمیشن میڈیکل کے شعبہ کی تباہی کی وجہ بنے گا،پی ایم ڈی سی کے دفاتر پر راتوں رات قبضہ کیا گیا۔راجہ ظفر الحق نے کہاکہ نئے میڈیکل کمیشن میں پرائیویٹ میڈیکل کالجز کو فری ہینڈ دیا گیا ہے،پرائیویٹ میڈیکل کالجز جتنا چاہیں فیسیں لیں کوئی پوچھ گچھ نہیں،حکومت آرڈیننس واپس لیکر قانون سازی کے زریعے اصلاحات لائے۔سینیٹر ڈاکٹر سکندر میندھرو نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ حکومت راتوں رات آرڈیننس لے آئی ہے،تمام بلز اپوزیشن سے مشاورت کے ساتھ لائے جاتے ہیں، اچھا ہوتا کہ اپوزیشن کے ساتھ مشاورت کر کے بل لایا جاتا۔ انہوںنے کہاکہ آرڈیننس کی کی
آڑ میں پی ایم ڈی سی پر کو کیا گیا، دیواریں پھلانگ کر پی ایم ڈی سی کے ریکارڈ پر قبضہ کیا گیا ہے۔سینیٹر مشتاق احمد نے کہاکہ پی ایم ڈی سی کی تحلیل کی مذمت کرتے ہیں، پی ایم سی کے آرڈیننس کو مسترد کرتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ اس وقت ایوان صدر آرڈیننس فیکٹری اور پارلیمنٹ کو آرڈیننس ڈیپو کا درجہ دیا گیا ہے، پی ایم ڈی سی پر صدارتی شب خون مارا گیا،آرمی کے لوگ پی ایم سی میں شامل ہوں گے۔
انہوںنے کہاکہ پی ایم سی آرڈیننس کے مطابق آرمی کالیجز کو استثنیٰ حاصل ہوگا۔ انہوںنے کہاکہ پی ایم ڈی سی ملازمین کو بحال کیا جائے۔ سینیٹر نعمان وزیر نے کہاکہ توانائی بحران پر قابو پانے کا کریڈٹ (ن )لیگ کو جاتا ہے،ملک میں 35 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے کارخانے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ مسئلہ یہ ہے کہ بجلی مہنگی پیدا ہو رہی ہے،24 روپے فی یونٹ تک بجلی پیدا ہو رہی ہے۔
انہوںنے کہاکہ سینیٹ کے ایک اجلاس پر ایک کروڑ روپے خرچہ آتا ہے،سینیٹ میں ایک منٹ کی تقریر پر 90ہزار 900 روپے خرچ آتا ہے۔سینیٹ اجلاس میں سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہاکہ میڈیا مجھ سے پوچھتا ہے ٹماٹر 17 روپے کلو کہاں سے ملتے ہیں،17 روپے کلو ٹماٹر بنی گالا کی منڈی اور آئی ایم ایف کی منڈی سے ملتے ہیں۔سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہاکہ پی ایم ڈی سی کو شوکت خانم کا ذیلی ادارہ بنادیا گیا،
پیمراسرکاری اثر رسوخ کے زیراثر ہے،شائد آئی ایم ایف یا بنی گالہ منڈی میں ٹماٹر 17روپے کلوہوگا۔ انہوںنے کہاکہ مہنگائی کے باعث غریب آدمی نہ روٹی کھا سکتاہے نہ بل دے سکتاہے،جنسی اسیکنڈل میں ملوث بلوچستان یونیورسٹی کے سابق چانسلر جاوید کو لاہور میں لگادیاگیا۔ شیری رحمن نے کہاکہ حکومت نے ایک سال میں 19 آرڈیننس پاس کئے،حکومت یاد رکھے انہوں نے تاریخ رقم نہیں ،19
میں سے 11 آرڈیننس وہ ہیں جو ایمرجنسی میں پاس ہوئے۔ انہوںنے کہاکہ حکومت آرڈیننس واپس لے کر پارلیمنٹ کی توقیر بحال کرے۔انہوںنے کہاکہ اس دور میں جو کچھ پارلیمنٹ ہوا ہے اس سے قبل کبھی نہیں ہو ،پرویز مشرف کے دور میں بھی اسمبلی میں نہیں ہوا، اس وقت ایک سال می انیس آرڈیننس منظور کروائے جا چکے ہیں۔ شیری رحمن نے کہاکہ جس طرح آرڈیننس منظور کروائے گئے ہیں
اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا،گیارہ آرڈیننس کی منظوری والا دن ایک سیاہ دن تھا۔ انہوںنے کہاکہ قومی اسمبلی کے اسپیکر ایوان کے ضامن ہیں، حکومت کا جو آمرانہ رویہ ہے وہ تاش کے پتوں کی طرح گرتی آئے گی، اسپیکر کو ایڈوائیس کریں کہ آرڈیننس واپس لاکر کمیٹیوں کو بھیجیں،وہ آرڈیننس بلز نہیں بن سکتے۔ انہوںنے کہاکہ پی ایم ڈی سی آرڈیننس میں میرٹ کا قتل ہوا ہے، شرم کریں اپنے وعدے یاد کریں،
یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہم نہیں چاہتے کہ پارلیمان کے مسئلے عدالتوں میں جائیں۔سینیٹر مشتاق احمد نے سینیٹ میں دلچسپ تجویز دیتے ہوئے کہاکہ حکومت ٹماٹر کو پاکستان کی کرنسی طور پر ڈیکلیئر کرے،ٹماٹر اتنی مضبوط کرنسی ہوگی کہ ایک ڈالر کے دو ٹماٹر ملیں گے۔انہوںنے کہاکہ حکومت مکمل طور پر ناکام ہوگئی،حکومت معاشی طور پر ناکام ہوچکی ہے۔
سینیٹر محسن عزیز نے کہاکہ معیشت بحال ہو رہی ہے ڈالر 154 روپے پر آ گیا،وہ دن دور نہیں جب ڈلر 140 کا ہو گا،درآمدات میں خاطر خواہ کمی برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ آئی ایم ایف نے بھی کہا ہے کہ گردشی قرضہ کم ہو رہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ اپوزیشن مثبت تجاویز دے ہم غور کریں گے۔ انہوںنے کہاکہ آئی ایم ایف نے تسلیم کیا ہے کہ ملکی معیشت بہتر ہو رہی ہے۔
انہوںنے کہاکہ سمجھتا تھا کہ اقتصادی صورتحال پر بات ہوگی مگر یہاں صرف ٹماٹر کی بات ہورہی ہے،ٹماٹر کچن آئٹم ہے ضروری آئٹم نہیں ہے۔ اس دور ان اپوزیشن ارکان کے ٹماٹر،ٹماٹر کی آوازیں اس موقع کہاگیا کہ پر ایک کمیٹی بنائی جائے تاکہ پتہ چلا کہ کہاں گھپلے ہوئے۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہاکہ یہ حقیقت ہے کہ ہمارا ٹریڈ ڈیفسٹ 2ارب ڈالر تک گیا،آئل اور گیس مافیا نے نئے ذخائر دریافت ہونے سے روکا
،ہمارے تمام بجٹ خسارے پر بنائے،قرض لے کر پروجیکٹس کئے گئے،شوگر مافیا کی وجہ سے کاٹن پیداوار ختم ہورہی ہے،ہم نے ڈالر کوفری فلوٹ کیاجس سے ڈالر 140کی رینج میں آجائیگا۔ انہوںنے کہاکہ ہمارا ٹریڈ ڈیفسٹ 70فیصد کم ہوگیا،آئی ایم ایف کے بیان میں واضح لکھا کہ سرکلر ڈیسفسٹ کم ہورہا ہے،آئی ایم ایف نے لکھا کہ منی لانڈرنگ بل پر عملدرآمد ہورہا ہے۔قراۃ العین مری نے کہاکہ
حکومت کو سمجھ میں نہیں آرہا کہ کرنا کیا ہے،وزیراعظم کہتے تھے کہ ایک کروڑ نوکریاں دینگے۔ انہوںنے کہاکہ اب ان کے وزیر خزانہ نے بھی کہا ہے کہ نوکریاں دینا ان کا کام نہیں،باکو کی کانفرنس میں بیلی ڈانس ہوتا ہے،ایگریکلچر سیکٹر کی انہوں میں بینڈ بجا دی ہے،ترین کی ملین چلتی رہیں باقی جائیں بھاڑ میں۔ انہوںنے کہا کہ گندم کا ریٹ اس حکومت نے اتنا۔ تھا دیا ہے کہ روٹی بھی کھانی مشکل ہو گئی ہے،
اٹھارویں ترمیم کی منظوری میں ہم سب نے کردار ادا کیا مگر اس پر آئینی عملدرآمد تو ہو،نان میڈیکل لوگوں کو اداروں کا سربراہ بنایا جا رہا ہے۔سینیٹر کلثوم پروین نے کہاکہ آرڈینس پر آرڈیننس جاری ہورہے ہیں،پی ایم ڈی سی کو تحلیل کرنے کیلئے جو کمیشن بنایا تھا ،اس کمیشن نے طریقہ کار کو بائی پاس کیا،اس حوالے سے آرڈیننس پارلیمنٹ میں لایا جائے۔ انہوںنے کہاکہ کمیشن کیلئے نہ کوئی اخبار میں اشتہار آیا نہ
ہی صوبوں کو نمائندگی دی گئی،اخبارات میں آیا ہے کہ پرویز الٰہی نے کہا کہ آئندہ تین ماہ کیلئے کوئی وزیراعظم بننے کو تیار نہیں۔ انہوںنے کہاکہ وزیراعظم کے ساتھ نان الیکٹیبلز ان کو فیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔سینیٹر روبینہ خالد نے کہاکہ پی ایم ڈی سی کے اوپر شب خون مارا گیا،موجودہ حکومت آمروں کی ٹیم ہے،چیئرمین صاحب آپ کو پشاور لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے دورے کی دعوت دیتی ہوں،
حکومت جس ہسپتال کو مثالی کہتی ہے آپ اس کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ سینیٹ اجلاس میں سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ ہمارے پاس عامر ہیں آپ کے پاس امیر ہیں،مہنگائی تب ہوتی ہے جب کوئی بھی چیز آپ کی پہنچ سے باہر ہو جائے،مہنگائی کے کچھ اسباب ہیں جن سے ہم آگاہ ہیں،مہنگائی پر قابو پانے کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔ انہوںنے کہاکہ اندرونی خسارہ 50 فیصد نیچے لے کر آئے ہیں،
پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے ۔ انہوںنے کہاکہ سب کو فخر ہونا چاہیے پاکستان ریفارمز میں چھٹے نمبر پر آیا ہے،جب ریفارمز لے کر آتے ہیں تو بہتری میں تھوڑا وقت لگتا ہے،ماضی میں ملک کو قرضوں میں ڈبو دیا گیا۔سینیٹ اجلاس میں (ن )لیگ کے سینیٹر جاوید عباسی نے حکومت پر شاعرانہ تنقید کی ۔ قائد ایوان شبلی فراز نے کہاکہ آپ کی پڑھی گئی شاعری انتہائی بے وزن شاعری تھی۔
شبلی فراز نے کہاکہ جاوید عباسی نے جو الزامات لگائے اگر ثابت نا ہوئے تو اپنے وعدے کے مطابق استعفیٰ دینگے۔ انہوںنے کہاکہ آرڈیننس کو کیسے غیر قانونی کہا جا سکتا ہے،آرڈیننس آئین کا حصہ ہے اسے ختم کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کرنا ہوگی۔ انہوںنے کہاکہ فیصلہ کر لیں یا آرڈیننس کو تسلیم کریں یا آئین میں ترمیم کر لیں، اگر ہمیں شرم آنی چاہیے تو پیپلز پارٹی کو بھی شرم آنی چاہیے،
پیپلز پارٹی نے اپنے دور 104 آرڈیننس جاری کیے، مسلم لیگ ن لیگ نے 46 آرڈیننس جاری کیے۔شبلی فراز نے کہاکہ عوام نے اپوزیشن کے اس اقدام کی کوئی خاص حوصلہ افزائی نہیں کی،ا پوزیشن کا اصل ٹارگٹ حکومت کو کام کرنے سے روکنا ہے مگر یہ ان کی بھول ہے،حکومت کام بھی کریگی اور اصلاحات بھی لائے گی۔شبلی فراز نے کہاکہ پی ایم ڈی سی کے معاملے پر مختلف مقررین کا
مختلف مؤقف رہا،جنوری 2019 میں جو بل لایا گیا تھا وہ 1962 کے بل کی ترمیم تھی،پی ایم سی آرڈیننس کا مقصد ریگولیٹری اتھارٹی کا سٹیٹس تبدیل کرنا تھا۔ انہوںنے کہاکہ میڈیکل کا شعبہ بہت ہی غیر زمہ داروں کے ہاتھ میں آگیا تھا،نئے تقاضوں مے مطابق ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام ضروری تھا۔ انہوںنے کہاکہ مسلم لیگ (ن )کی جانب سے بھی یہ بل لانگ کوشش کی گئی مگر اس کی حمایت نہیں کی گئی۔
انہوںنے کہاکہ ملک میں یہ مافیا است ا مضبوط ہو گیا تھا،اپنے مفاد کے لیے ان حکومتوں نے ایسے اقدامات کیے تائید نہیں کی،پی ایم ڈی سی اصلاحات پر کمیٹی میں سب اراکین متفق تھے،یہاں آتے ہی اس کی مخالفت شروع کر دی گئی۔ انہوںنے کہاکہ ہم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ بل پر بحث ہونی چاہیے،مگر اس طرح سے پوائنٹ سکورنگ کرنا اچھی بات نہیں۔انہوںنے کہاکہ ہمارے بھی خدشات ہیں،
ہمیں اپوزیشن سے کوئی بعید نہیں،پی ایم ڈی سی اور پی ایم سی کے معاملے پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے تھا۔سینیٹر شبلی فراز نے کہاکہ یہاں پر ٹماٹر کا تذکرہ کیا جارہا ہے،ہم نے انڈیا کے ساتھ تجارت کا راستہ بند کیا جس کی وجہ سے مشکلات آئیں،بارشوں کے باعث ٹماٹروں کی فصل متاثر ہوئی،اس وقت ٹماٹروں کی ڈیمانڈ ذیادہ ہے اور سپلائی کم ہے