اسلام آباد (این این آئی)جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے واضح کیا ہے کہ ہم یہاں سے پسپائی نہیں پیشرفت اور سخت فیصلے کرینگے، ہمارے پاس پلان بی اور سی بھی ہے، پیرکو متحدہ اپوزیشن کی اے پی سی بلانے کی کوشش کررہا ہوں، مشاورت سے فیصلے کرینگے، آج ایک اسلام آباد بند ہے،انشاء اللہ کل پورا پاکستان بند کر کے دکھا دینگے، یہ سیلاب تھمے گا نہیں آگے بڑھے گا،
اپنے مقصد کے حصول تک جنگ جاری رہے گی، ووٹ قوم کی امانت ہے اس کو عزت دینا ہوگی، اس کے علاوہ تمہارے پاس کوئی چارہ نہیں،آئین میں اداروں اور محکمہ جات کا کردار متعین ہے،قابل احتساب پارٹی پورے پاکستان پر حکومت کر رہی ہے،ڈی چوک پر جو بدبو پھیلائی گئی، اس سے قوم کا سر شرم سے جھک گیا، تم تو حکومت میں ہو،تمہاری عادتیں گلی کوچے کے ایک لوفر کی طرح ہیں،تم جیسے لوگوں کا وزیر اعظم ہاؤس اور ایوان صدر میں رہنا مناصب کی بھی توہین ہے،قابل احتساب پارٹی پورے پاکستان پر حکومت کر رہی ہے،ہماری فوج ہمارے لئے محترم ہے، آئندہ کیلئے ہر حال میں طے کریگی کہ عام انتخابات سے ان کا کوئی تعلق نہیں رہیگا، ہم پر بغاوت کا مقدمہ کر نے کی باتیں کی جارہی ہیں، اگر یہ سیلاب وزیر اعظم ہاؤس کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کر لے توکسی کا باپ بھی نہیں رو ک سکتا،، پوری قوم ایک ہے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے،ایک کمٹنمنٹ ہو نی چاہیے۔ اتوار کو یہاں آزادی مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ عام تاثر یہ ہوتا ہے کہ وقت گزر نے کیساتھ لوگ تھک جاتے ہیں لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کے جذبات اور آپ کا جوش و خروش وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا رہاہے اس میں اضافہ ہواہے اور مقصد کے حصول کیلئے آپ آخری بازی لگانے کیلئے تیار نظر آرہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اس سے پہلے اس سرزمین اور ان فضاؤں میں اتنا بڑا انسانی اجتماع نہیں دیکھا اور مجھے یقین ہے کہ آئندہ بھی اتنے بڑا انسانی اجتماع کے امکانات بظاہر نظر نہیں آتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ یہ ایک مقصد لیکر آیا ہے،مسئلہ ایک شخص کے استعفے کا نہیں،قوم کی امانت کا ہے عوام کے ووٹ کی امانت ہے، عوام خود موجود ہو کر اپنی امانت واپس حاصل کر نے کی جدوجہد کررہے ہیں جبکہ حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کا ووٹ اکٹھا کیا جائے اس دھاندلی کے باوجود بھی حکومتی بینچوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں کے ووٹ سے یہ ووٹ ان سے زیادہ ہیں، ہمیں کہہ رہے ہیں کہ آپ الیکشن کمیشن میں جائیں وہاں اپنی شکایت درج کریں،
الیکشن کمیشن بے یچارا ہم سے بھی زیادہ بے بس ہے،اگر وہ بے بس نہ ہوتا تو آج اس قوم کی اتنی بڑی تعداد اسلام آباد میں نہ ہوتی۔انہوں نے کہاکہ موجودہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعتوں اور حکومتی جماعتوں نے فیصلہ کیا کہ کسی ٹربیونل میں نہیں جانا ٗ کسی الیکشن کمیشن میں نہیں جانا ٗ کسی عدالت میں نہیں جانا،دھاندلی کی تحقیقات پارلیمانی کمیٹی کریگی اور پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی ایک سال ہوگیا ہے نہ اس کی کوئی میٹنگ ہوئی ہے اور نہ ہی اس کے قواعد و ضوابط طے ہو سکے ہیں تو حکومتی بینچوں نے بھی اس حقیقت کااعتراف کیا کہ اتنی بڑی دھاندلی ہوئی ہے کہ کسی ادارے کے سامنے شکایات پیش کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔
انہوں نے کہاکہ آج ہمیں کہتے ہو کہ تم الیکشن کمیشن میں جاؤ، تحریک انصاف کی فارن فنڈنگ کاکیس اسی الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے،پانچ سال ہوگئے وہ نا جائز حکمران پارٹی کی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ نہیں کر سکتا وہ دھاندلی کے کیس کا فیصلے کیسے کریگا؟ آج بھی خود تحریک انصاف کے اکبر ایس بابر رل رہا ہے وہ کہتا ہے ہمیں حساب دیا جائے،تم لوگوں سے حساب مانگتے ہواور خود اپنے حساب کے حوالے سے کسی ادار ے کے سامنے پیش ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں۔انہوں نے کہاکہ دوسری پارٹیوں کے افراد پر اعتراض ہے انہوں نے کرپش کی ہے یہاں پوری پارٹی اور ٹبر کرپٹ ہے، یہ قابل احتساب پارٹی آج پاکستان پر حکومت کررہی ہے
کیا ہم اس حکومت کو تسلیم کر سکتے ہیں،ان حکمرانوں کو جانا ہوگا، عوام کو ووٹ کا حق دینا ہوگا،اس کے علاوہ تمہارے پاس کوئی اور چارہ نہیں۔انہوں نے کہاکہ میں واضح کر ناچاہتا ہوں کہ یہ تحریک ہے یہاں اجتماع کر نے کے بعد اس کا معنی یہ نہیں کہ ہمارا سفر رک گیا ہے،کئی صحافی حضرات کے ساتھ بات ہوئی ہے،آپ یہاں سے جائیں گے وہ اس کو پسپائی کے لفظ سے تعبیر کر تے ہیں جائیں گے ہم تو پیشرفت کی طرف سے جائینگے اور سخت فیصلے کرینگے آج ایک اسلام آباد بند ہے،انشاء اللہ پورا پاکستان بند کر کے دکھا دینگے،آج ایک اسلام آباد میں ااجتماع ہے پورے پاکتسان کو اجتماع گاہ بنا کر دکھائینگے یہ سیلاب تھمے گا نہیں آگے بڑھے گا اور اپنے مقصد کے حصول تک جنگ جاری رہے گی۔
انہوں نے کہاکہ مجھے کہا گیا کہ آپ کے لوگ ڈی چوک کے نعرے لگا رہے ہیں، ڈی چوک تو بہت تنگ جگہ ہے،یہاں کھلی فضا ہے پھر بھی زمین تنگ ہوگئی ہے،اگر کارکن جذبات کی بنیاد پرکہتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے،جب تک حزب اختلاف اور اس کے قائدین ہمارے ساتھ ایک سٹیج پر ہیں تو ہم اگلے اقدامات کا فیصلہ بھی باہمی مشاورت سے کرینگے اور ان کا ہمارے اوپر حق ہے فیصلہ میں ان کی رہنمائی بھی لیں لیکن ایک بات بڑی واضح ہے کہ دنیا میں کوئی پریشان ہے وہ یا اسرائیل ہے یا قادیاتی ہے وہی اس اجتماع سے ن ہیں کیوں پریشان ہیں؟ 1996ء میں مئی کا نوائے وقت پڑھیں اس نے واضح طورپر سرخی لگائی تھی کہ 2020میں خطے میں اسرائیل کا اثرو رسوخ بڑھ جائیگا اور اپنا نیٹ ورک مکمل کر لے گا
اور اس مقصد کیلئے ایک کرکٹر عمران خان کو منتخب کیا گیا ہے اور اس کو یہ ڈیوٹی دی گئی ہے کہ یہ کام آپ نے کرنا ہے۔انہوں نے کہاکہ اس اجتماع نے ان کی چالیس سالہ سر مایہ کاری پر پانی پھیر دیا ہے،آنے والی چار دہائیوں تک پاکستان میں کسی کو جرات نہیں ہو سکے گی کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کر نے کی بات کرے۔انہوں نے کہاکہ کوئی مائی لعل کا اس کی جرات نہیں کر سکتا، آنے والی کئی دہائیوں تک پاکستانی سر زمین پر کوئی مائی کا مالعل قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی شق نکالنے کی جرات نہیں کر سکے گا۔انہوں نے کہاکہ بین الاقوامی دباؤ کے تحت حکمران اس بات پر دباؤ میں آجاتے ہیں اس کو ختم کیا جائے،انشاء اللہ مستقل میں کسی کو جرات نہیں ہو سکے گی کہ پاکستانی آئین میں اسلامی دفاعات کو چھیڑ سکے۔ انہوں نے کہاکہ
ہر الیکشن آتا ہے اس میں مداخلت کی جاتی ہے،اپنی مرضی کے نتائج حاصل کئے جاتے ہیں،وضاحت کے ساتھ کہہ دینا چاہتا ہوں ہماری فوج ہمارے لئے محترم ہے اور آئندہ کیلئے ہر حال میں طے کریگی کہ پاکستان کے عام انتخابات سے ان کا کوئی تعلق نہیں رہیگا اس سے ہمارا ادارہ اور فوج متناززعہ ہو تی جارہی ہے،ہم پاکستانی فوج کو متنازعہ نہیں بنا نا چاہتے ہم آئین کے اندر تمام اداروں کے کر دار کا اپنا دائرہ ہے،اپنے دائرے سے وابستہ رہیں گے تو ملک میں کوئی فساد نہیں ہوگا،سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا تھا کہ از سر نو ایک عمرانی معاہدہ ہونا چاہیے، ہم آئین سے بہت دور چلے گئے ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے چیف جسٹس کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ہرادارہ اپنی مداخلت کررہاہے،عوام مطمئن نہیں ہیں پاکستان میں آئین کی حیثیت کیا ہے؟
سب اداروں کو بیٹھ کر طے کر نا ہے کہ آئین محترم اورسپریم ہے اس کی بنیاد پر ملک کا نظام چلے گا۔ انہوں نے کہاکہ جمہوری ادارے بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں، جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں رہ گئی ہے،ہر شخص الیکشن میں عوام کی طرف دیکھنے کی بجائے کسی اور کی طرف دیکھ رہاہے، اس بات کو واضح کر ناچاہتے ہیں اب فیصلے عوام کرینگے اور عوام کاووٹ کریگا عوام کے ووٹ کو عزت دینا ہوگی،عوام کے ووٹ کو امانت سمجھنا ہوگا کسی کو عوام کے فیصلے پر اعتراض نہیں ہوگا عوام کے ووٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔انہوں نے کہاکہ بڑے شوق سے کہتے ہیں کہ مدارس کے نصاب کی اصلاحات ہو نی چاہیے اس کے نصاب کو تبدیل کر نا چاہیے،مدارس غریبوں کے مدارس ہیں غریبوں کے بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے،
مفت تعلیم ہوتی ہے،مفت رہائش مہیا کی جاتی ہیں لیکن ارب پتیوں کے اداروں سے خاص طبقے کو تعلیم ملتی ہے ان بڑے لوگوں کے تعلیمی اداروں کی اصلاح کیوں نہیں کی جاتی ہے تبدیلیوں کی بات کرینگے تو پہلے ان کی اصلاح کریں۔انہوں نے کہاکہ قوم کی فکر کریں آج پاکستان کا غریب کہاں پہنچ چکا ہے، پاکستان کا غریب صبح شام کی روٹی کیلئے ترس رہا ہے، مہنگائی کی وجہ سے بازار سے راشن خریدنے کے قابل نہیں رہا، بچے بھوکے سو رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ غریب کی بہتری کیلئے کچھ کرو،نہیں کر سکتے تو آپ کو پاکستانی قوم پر مسلط ہو نے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ معاملات سنجیدہ ہیں،اب اس کو جانا چاہیے،کہتے ہیں یہ مولوی صاحبان آگئے ہیں،آج اجتماع میں پوری قوم بیٹھی ہوئی ہے اس میں تمام سیاسی جماعتیں موجود ہیں، کارکن موجود ہیں،
تاجر، ڈاکٹرز، انجینئرز، مزدور، کسان، ملک کے ہر طبقہ کا فرد اجتماع میں آیا ہوا ہے امید وابستہ کئے ہوئے ہیں ہم ان کی امیدوں پر پورا اترنا چاہتے ہیں،کسی صورت پر انشاء اللہ مایوس نہیں ہونے دینگے۔انہوں نے کہاکہ افواہوں پر مت جائیں، میڈیا کے لب ولہجہ پر مت جائیں، سوشل میڈیا کے لب ولہجہ پر مت جائیں اپنے اوپر اعتماد کرو اور اپنی قیادت پر اعتماد کریں،یہ لوگ ہم سے زیادہ خیر خواہ نہیں ہوسکتے،اپنی اولاد کیلئے اس کے ماں باپ سے زیادہ خیر خواہ کوئی نہیں ہوسکتا ہے، آپ کی قیادت آپ کے حق میں فیصلے کریگی وہی آپ کو مستقبل میں آگے لے جائیگی۔انہوں نے کہاکہ گزشتہ اٹھارہ سالوں میں تمام دینی ماحول کی واحد جماعت جے یو آئی ہے جس نے مذہبی نو جوان کو احتجاج کی راہ دی ہے جس نے مذہبی نو جوان کو سیاسی راستہ بتایا ہے جس نے مذہبی نو جوان کی تربیت کی ہے
آج اس کواشتعال دلایا جارہاہے وہ میرے خواہ نہیں ہے جو مجھے طعنے دیتے ہیں راستہ بتائے ہوئے اشتعال دلاتے ہیں پاکستان کی پوری تاریخ میں نائن الیون کے بعد اپنے نو جوانوں کو قابو میں پایا، امریکہ اور مغرب کی سازش کو ناکام بنایا،جے یو آئی نے تمام دینی قوتوں کو اعتدال کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا ہے، آئین اور پاکستان کے ساتھ اکٹھا کیا ہے،بغاوت اور اسلحہ سے دو رور رکھا گیا ہے آنے وارلے مستقبل میں یہ صلاحیت بھی ہم رکھتے ہیں تم ہمیں راستے نہ بتایا کریں،امریکہ اور مغربی دنیا کی پالیسی یہ تھی کہ اسلامی دنیا کے نو جوان کو اشتعال دلاؤ تاکہ وہ ریاست کے ساتھ تصادم میں آئیں،ریاستی قوت سے ان کا خاتمہ کر دیں جو حالات افغانستان، عراق، لیبیا، شام ا، یمن ہیں اور سعودی عرب میں پیدا کر ناچاہ رہے ہیں پاکستان میں بھی یہی حالات پیدا کر کے مذہب نو جوان کونسیت و نابو دکر ناچاہتے تھے،
ہماری حکمت عملی کامیاب رہی ہے،یہ آئین کے ساتھ کھڑے ہیں،پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں،جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں اور قانون کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ عالمی اور پاکستان چینل اعتراف کررہے ہیں کہ پہلی مرتبہ اتنا بڑا منظم اجتماع زندگی میں نہیں دیکھا۔ انہوں نے کہاکہ ڈی چوک خرافات کی راہ ہے،جنسی عزت دی جارہی ہے،غلط باتیں کیوں کی جاتی ہیں؟تم کون ہوتے ہو، ہمارے بارے میں تعصب کی بات کر نے والے ہیں،ہم تم سے بہتر سیاست کو جانتے ہیں،تم سے اچھے سیاستدان ہیں، ہمارا ماحول سنجیدہ ہے، تم ساری رات نشو میں دھت ہو کر سیاست کر تے ہو تمہیں شرم آنی چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت تمام پارٹی سربراہان کے رابطے میں ہیں،کوشش کررہا ہوں اپوزیشن کا پیر کو اجتماع ہو سکے تاکہ آگے کی پیشرفت ہوسکے،خدانخواستہ ہم نے کبھی 126دن کی بات کی ہے،
کبھی دو ماہ یا ایک ماہ کی بات ہے تو کیوں بار بار ایک لفظ دہرا کر ماحو ل واشتعال دلاکررہے ہیں،آپ ہمار ے فیصلے کر نے والے کون ہیں،ہم اپنے مستقبل کو بہتر جانتے ہیں،جب سے پاکستان بنا ہے ہم نے اس کے ساتھ سفر کیا ہے، ہماری پاکستان سے پہلے بھی تاریخ ہے،برصغیر کی دوسالہ تاریخ ہمارے اکابرین کی قربانیوں کا تسلسل ہے اور یہاں ان کے امین بیٹھے ہوئے ہیں جمعہ جمعہ آٹھ دن کی سیاست کر نے والے ہمیں سیاست بتائینگے، سونے کا چمچہ لیکر پیدا ہونے والے ہمیں سیاست بتائیں گے۔ یہ تحریک ہے ایک بہت پتھر سمندر میں پھینک کر بھونچال پیدا کر نے کا نام نہیں ہے،تحریک سمندر کی لہروں کا نام ہے لہریں چلتی ہے نشیب و فراز کا شکار ہوتی رہتی ہیں لہر کبھی ڈوب بھی جاتی ہے اور پھر بنتی ہے اورساحل پر جا کر دم لیتی ہے۔انہوں نے کہاکہ عمران خان سن لو یہ تحریک یہ طوفان یہ سیلاب آگے بڑھتا جائیگا کہ
یہاں تک تجھے اقتدار سے اٹھا کرباہر نہ پھینک دے۔انہوں نے کہاکہ ہمارے ایک دوست نے کہا ہے کہ فضل الرحمن پر بغاوت کا مقدمہ ہونا چاہیے کیوں بھائی؟ اس نے کہا ہے ہم وزیر اعظم کے گھرپر حملہ کر کے گرفتار کر لینگے۔ انہوں نے کہاکہ جس قوت سے آپ یہاں آئے ہیں اگر یہ سیلاب وزیر اعظم ہاؤس کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کر لے توکسی کا باپ بھی نہیں رو ک سکتا،ہم پر امن ہیں اور رہیں گے اس لئے ہو ش اور سمجھ کر بات کیا کرو،ہم آگے نکل چکے ہیں،ہم اپنی جان کواپنی ہتھیلیوں پر رکھا ہوا ہے، تم ہمارے خلوص کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہاکہ تم ہماری حب والوطنی کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔تم اپنی حقیقت کو سمجھ لو ہم تمہاری حقیقت اور حیثیت کو بھی جانتے ہیں ہم اپنے آپ کو بھی جانتے ہیں اور کر دار کو بھی جانتے ہیں تقریر یں کر تا ہے،اس قدر کمینے لوگ پاکستان کے مناصب پرفائز کر دئیے گئے جس سے
پاکستان کے منصب کی توہین ہورہی ہے، ایسے لوگوں کا وزیر اعظم کے منصب پر بیٹھنا ایوان صدر اور وزیر اعظم کی ہاؤس توہین ہے، یہ گالم گلوچ بریگیڈ ہے اپنی تقریر میں گالیاں دیتے ہیں خرفات بکتے ہیں ہم سنجیدہ اور نظریاتی بات کر تے ہیں،تم تو حکومت میں ہو،تمہاری عادتیں گلی کوچے کے ایک لوفر کی طرح ہیں،گلی کوچے کی زبان بولنے والے آج ہمارے حکمران بن گئے ہیں،کوئی مقام اورشائستگی ہو نی چاہیے اس قسم کے لوگ ہم پر مسلط ہیں ان سے جان سے چھڑانی ہے، اس کے مقابلے میں ہم نے آگے بڑھنا ہے۔ انہوں نے کہاکہ جو فیصلہ قیادت کریگی آپ نے چلنا ہے،ہمارے لوگ منظم ہیں ہمارے لوگ نعتیں بھی پڑھ رہے ہیں کھیل کود بھی کر تے ہیں ذکر اذکار ہورہاہے۔ انہوں نے کہاکہ میں آپ کو کہوں ایک ماہ یہاں رہنا ہے تو تو آپ کہیں چھ مہینے بیٹھنے رہنا ہے میں آپ کے جذبات سلام پیش کرتا ہوں آپ ان سے سو قدم آگے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ آپ جو اعتماد مجھ پر کررہے ہیں اس سے بڑھ کر میں آپ پر اعتماد کررہاہوں اس اعتماد کے رشتے نے آپ کے اندرتحریک پیدا کی ہے لگن پیدا کی ہے آپ کے اندر جذبہ جہاد پیدا کیا ہے،آپ کے جذبے کو سلام پیش کرتا ہوں۔انہوں نے کہاکہ جو فیصلے ہونگے اس کے مطابق یک زبان آگے بڑھیں گے آپ سے وعدہ کر تے ہیں پسپائی نہیں کرینگے،پیشرفت کرینگے،کسی اورمحاذ پر چلے جانایہ ہماری حکمت کا حصہ ہے پلان بی بھی ہے اور سی بھی ہے انشاء اللہ تمہارے جیلیں کم پڑ جائیں گی۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں تحریکیں اور اس کے اصول رسول ؐ کی تعلیمات سے ملتے ہیں،میدان میں آگئے ہیں اور ڈٹے ہوئے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ انہوں نے کہاکہ تمام سیاسی قائدین کا شکریہ ادا کرتا ہوں، پوری قوم ایک ہے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ایک کمٹنمنٹ ہو نی چاہیے۔ ووٹ قوم کی امانت ہے اس کو عزت دینا ہوگی، اس کے علاوہ تمہارے پاس کوئی چارہ نہیں،آئین میں اداروں اور محکمہ جات کا کردار متعین ہے،قابل احتساب پارٹی پورے پاکستان پر حکومت کر رہی ہے،ڈی چوک پر جو بدبو پھیلائی گئی، اس سے قوم کا سر شرم سے جھک گیا