اسلام آباد(این این آئی)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکیشن کو بتایا گیا ہے کہ بیرون ممالک سے آنیوالے افراد 1 لاکھ کا سامان ڈیوٹی فری لا سکتے ہیں جس میں وہ موبائل بھی شامل کر سکتے ہیں،سائبر سیکورٹی کے حوالے انٹر نیٹ فراہم کرنا محفوظ نہیں ہے، پاکستان میں ڈیزاسٹر وارننگ سسٹم کیلئے فنڈنگ کم اور ڈیزاسٹر کے بعد فنڈنگ زیادہ ہوتی ہے، ڈونرز بھی آفات کے بعد مددفراہم کرتے ہیں اورارلی وارننگ پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ سے حاصل کرتے ہیں
جبکہ قائمہ کمیٹی نے فوری طور پر بیرون ممالک سے آنے والے مسافروں کو 2 موبائل فون بغیر ڈیوٹی کے لانے کی سفارش کر دی ہے۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکیشن کا اجلاس پیر کو چیئرمین پرسن کمیٹی سینیٹر روبینہ خالد کی زیر صدارت پارلیمنٹ لاجز کے کانفرنس ہا ل میں منعقد ہوا۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں 22 اگست2019 کو منعقد ہونے والے کمیٹی کے اجلاس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے حوالے سے درخواست، ایک موبائل فون کی ایمپورٹ پر کسٹم ڈیوٹی سے استثنیٰ، بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں کے موبائل فون کی رجسٹریشن کے حوالے سے ڈیٹا کے غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کے علاوہ الیکٹرانک کرائم ایکٹ 2016 کی روک تھام کے حوالے سے رولز37 اور51 میں ترمیم کی تجویز کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز ڈاکٹر اشوک کمار، انجینئر رخسانہ زبیری، رحمان ملک، کلثوم پروین، ثنا جمالی، فیصل جاوید، غوث محمد نیازی،مولانا عبدالغفور حیدری اور ڈاکٹر شہزاد وسیم کے علاوہ سیکرٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی، چیئرمین پی ٹی اے،ممبر این ڈی ایم اے، جوائنٹ سیکرٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی،اسسٹنٹ چیف ایئر سٹاف اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بیرون ممالک سے آنے والے افراد کے موبائل پر کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ واپس لینے کے حوالے سے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ
پہلے ایک فون پر ڈیوٹی فری کی اجازت دی گئی تھی مگر بیرون ممالک سے آنے والوں کے ڈیٹا کے غلط استعمال ہونے کی وجہ سے یہ سہولت ختم کر دی گئی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ بیرون ممالک سے آنے والے افراد 1 لاکھ کا سامان ڈیوٹی فری لا سکتے ہیں جس میں وہ موبائل بھی شامل کر سکتے ہیں۔ چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ معاملات کو ٹھیک کرنے کی بجائے سہولت کو بند کر دینا افسوسناک ہے۔ لوگوں اور خاص طور پر نوجوانوں کو جدید سہولیات دینے کی بجائے سہولت سے
محروم کرنا باعث تشویش ہے۔انہوں نے کہا کہ موبائل فون نہ صرف رابطے کا ذریعہ ہے بلکہ نوجوانوں کیلئے کاروبار اور ملازمت کے مواقع فراہم کرنے میں مددگار بھی ثابت ہو رہا ہے اس قسم کی پابندیاں آئی ٹی کی ترقی میں رکاوٹ کا باعث بن سکتی ہیں جو کسی بھی ملک کی ترقی پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ لوگوں کا یہ بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے آئی ٹی سیکٹر کی گروتھ پر اس کے منفی اثرات پڑے رہے ہیں۔انہوں کہا کہ لوگوں کو سہولت دینا ہمارا فرض ہے۔
بیرون ممالک سے آنے والوں کو ڈیوٹی فری دو فون لانے کی اجازت ہونی چاہیے۔ سینیٹر رحمان ملک نے کہا ک بین الاقوامی ایئر پورٹس پر عوام کیلئے وائے فائے کی سہولت دی جاتی ہے مگر ہمارے ایئر پورٹس پر عوام اس سہولت سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ باہر سے موبائل لیکر آنے پر پابندی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے زیادتی ہے۔کم از کم ایک موبائل فون لیکر آنے کی اجازت ہونے چاہئیں۔اسسٹنٹ چیف ایئر سٹاف نے کمیٹی کو بتایا کہ سائبر سیکورٹی کے حوالے
انٹر نیٹ فراہم کرنا محفوظ نہیں ہے۔جس پر اراکین کمیٹی نے کہا کہ سہولیات دینا ہمارا فرض ہے۔باہر سے آنے والے مسافروں کو انٹر نیٹ نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگر دنیا بڑے ایئر پورٹس پر سروس دے سکتی ہے تو ہمیں بھی دینی چاہیے۔قائمہ کمیٹی نے فوری طور پر بیرون ممالک سے آنے والے مسافروں کو 2 موبائل فون بغیر ڈیوٹی کے لانے کی سفارش کر دی۔ پاک فضائیہ کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ موبائل فون لیکر آنے پر پابندی سے
ہمیں بھی مسائل کا سامنا ہے۔ قائمہ کمیٹی نے فون پر عائد ڈیوٹی کی مد میں اکٹھے ہونے والی آمدن کی تفصیلات آئندہ اجلاس میں طلب کر لیں۔ این ڈی ایم اے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان میں ڈیزاسٹر وارننگ سسٹم کیلئے فنڈنگ کم اور ڈیزاسٹر کے بعد فنڈنگ زیادہ ہوتی ہے۔ ڈونرز بھی آفات کے بعد مددفراہم کرتے ہیں اورارلی وارننگ پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ سے حاصل کرتے ہیں۔ہمارے نیشنل آپریشنل سیل میں پاک فضائیہ کام مستقل لیزان آفیسر موجود ہوتا ہے۔آزاد کشمیر میں
حالیہ زلزلے کے دوران پی ٹی اے کے اشتراک سے ایس ایم ایس الرٹس چلائی گئیں۔جس پر چیئرپرسن کمیٹی سینیٹر روبینہ خالدنے کہا کہ ارلی وارننگ سسٹم کو موثر بنایا جائے تو بے شمار جانیں بچ سکتی ہیں۔ قدرتی آفات کے حوالے سے ہمیں پہلے تدابیر اور اقدام اٹھانے چاہیں ہمارے پاس وسائل موجود ہیں مگر متعلقہ اداروں کے مابین باہمی تعاون کی کمی کی وجہ سے ہم آفات کو کنڑول نہیں کر سکتے۔آفات کے بعد ہم اقدامات اٹھاتے ہیں۔سیکرٹری آئی ٹی نے کہا کہ جدید ٹیکنالوجی کی سپورٹ کیلئے
ایک میکنزم تیار کرنا چاہیے جس میں متعلقہ ادارے مل کر ایک ایسا سسٹم بنائیں جس سے بروقت معلومات کی فراہمی سے آنے والی آفات کے نقصانات کو کم سے کم کرنے اور کنڑول کرنے میں آسانی ہو۔ لوگوں میں شعور آگاہی کی اشد ضرورت ہے۔سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ سونامی کو ایک ادارہ کنڑول نہیں کر سکتا این ڈی ایم اے، ایئر فورس، محکمہ موسمیات، پی ڈی ایم اے اور دیگر متعلقہ ادارے مل کر ایک لائحہ عمل اختیار کر کے معاملات کو بہتر کر سکتے ہیں۔ قائمہ کمیٹی نے ہدایت کی کہ
این ڈی ایم اے،محکمہ موسمیات اور پاک فضائیہ و دیگر متعلقہ ادارے مل کر ارلی وارننگ کے حوالے سے حکمت عملی تیار کریں۔سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ2005کے زلزلے میں جاں بحق اور زخمیوں کے ابھی تک درست اعداد و شمار نہیں ملے۔22خواتین ابھی تک ریڑھ کی ہڈی ٹوٹنے سے بے یار و مددگار ہیں۔انہوں نے کہا کہ پہلے بھی وبائی امراض کی وجہ سے بے شمار لوگ اموات کا شکار ہو جاتے تھے ابھی ڈینگی پر قابو پانے کیلئے بر وقت اقدامات نہیں کئے گئے۔قائمہ کمیٹی نے
بیرون ممالک سے آنے والے پاکستانیوں کے ڈیٹا کے غلط استعمال کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا۔قائم مقام ڈی جی سائبر کرائمز ونگ ایف آئی اے نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ سائبر کرائم ایف آئی اے ونگ کو28 شکایات ملیں جن میں سے 5 کی انکوائری کی گئی ہے 10 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور4 شکایات کے کیس بھی درج کیے گئے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ 47050 مسافروں کے ڈاکومنٹس کا غلط استعمال کیا گیا ہے۔ڈیٹا چوری اس وقت ہوتا ہے جب فوٹو کاپی کیلئے آتا ہے۔ہمارے ادارے کے صرف دو لوگوں کی ڈیٹا تک رسائی تھی۔موبائل فروخت کرنے والے ڈیلرز اور ایمپورٹرز کو بھی گرفتار کیا ہے اور ایک ٹریولنگ ایجنسی بھی اس کام میں شامل ہے۔ چیئرمین پی ٹی اے عامر عظیم باجوہ کمیٹی کو بتایا کہ ڈیٹا چوری ہونے کے54ہزار کیسز سامنے آئے ہیں۔ ایف آئی آر درج کر کے ایکشن بھی لیا گیا ہے اب لوگوں کا ڈیٹا غلط استعمال نہیں ہو رہا۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کے سیکشن 16کے تحت پی ٹی اے کو نامناسب مواد کوبلاک کرنے کا حق دیتا ہے۔ایکٹ تو 2016میں بنا مگر ابھی تک رولز نہیں بنے۔ایک بین الوزارتی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس نے رولز بنا کر بھیج دیئے گئے ہیں۔ ایک سے ڈیڑھ ماہ میں منظور ہو جائیں گے۔چیئرپرسن کمیٹی روبینہ خالدنے کہا کہ کمیٹی کو جو بریف کیا گیا ہے اس پر ہمیں عدم اطمینان ہے۔کس طرح صرف دو بندے 40ہزار موبائل فونز کا ڈیٹاچوری کر سکتے ہیں؟۔ ایسا تو نہیں کہ چھوٹے ملازمین پکڑے ہوں اور افسروں کوچھوڑ د یا گیا ہو۔ریاست کی جانب سے لوگوں کی پرائیویسی کو غلط استعمال ہونے کی بھی شکایات ہیں۔