کوئٹہ (آن لائن)جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات و سابق سینیٹر حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ مظلوم کشمیریوں کی داد رسی کے لیے لائن آف کنٹرول کی طرف جانے کا اعلان کرنے والے آج کے عمران نیازی نے لائن آف کرتار پور بارڈر کھولنے کا فیصلہ کرہی لیا، جس سے روزانہ بھارت سے 5ہزار بغیر ویزا کے بھارتی زائرین کی صورت میں پاکستان میں داخل ہونگے،
کرتار پور بارڈر ہندوستان کی سرحد ہے جبکہ لائن آف کنٹرول متنازعہ اور مقبوضہ کشمیر میں واقع ہے، خدشہ ہے کہ کرتارپور کی آڑ میں قادیانی اور احمدی جو پاکستانی آئین کے منحرفین ہیں بھاری تعداد میں ان کو ایک محفوظ راستہ دیا جاسکتا ہے۔ وہ جمعہ کے روز بلوچستان ہاس اسلام آباد میں الیکٹرانک میڈیا اور صحافیوں سے خصوصی گفتگو کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں 3ماہ ہونے کو ہیں اور مظلوم کشمیر ی محصور اور بھارتی ظلم اور تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں اس حوالے سے تو عمران نیازی طفل تسلیاں دے رہے ہیں کہ کرفیو اٹھانے سے پہلے بات نہیں ہوسکتی اور یہاں کرتار پور کا بارڈر کھول کر انہوں نے جو یوٹرن لیا ہے اسے کیا نام دیا جاسکتا ہے،انہوں نے کہا کہ اب پتہ چل رہا ہے کہ مودی کی کامیابی کی دعائیں ان سے ٹیلی فون پر بات کرنے کی خواہش اور تڑپ کے ثمرات کس انداز میں ظاہر ہورہے ہیں یہ پہلی بار ہوگا کہ روزانہ 5ہزار بھارتیوں کو بغیر ویزا کے پاک سر زمین میں داخلے کی اجازت مل گئی ہے، انہوں نے کہا کہ المیہ یہ ہے کہ کرتار پور بارڈر کے حوالے سے بھارت کے ساتھ اس وقت ان شرمناک مذاکرات میں بھی نہ مقبوضہ کشمیر سے کرفیو ہٹانے کی بات کی گئی نہ اس کا تذکرہ ہوا نہ ان کی آہوں اور سسکیوں کا کوئی خیال رکھا گیا، ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ لگتا ایسے ہے کہ امریکی ٹرمپ نے پاکستانی ٹرمپ کے ساتھ اپنے کچھ احکامات پر عملدرآمد کے لیے آج کے نیازی کو مجبور کردیا ہے،
اور غالبا کشمیر کے معاملے کو نظر انداز کرتے ہوئے ایران اور سعودی عرب کی مصالحت بھی انہی احکامات کا ایک حصہ ہوسکتی ہے، ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کل بھوشن یادیو جیسے بھارتی جاسوسوں اور قادیانیوں کے حوالے سے جو خدشات سامنے آرہے ہیں کرتارپور کا بارڈر کا اس انداز میں کھولنا ملک کی سالمیت کے لیے سوالیہ نشان ہوسکتا ہے، انہوں نے کہا کہ اگر کرتارپور کا بارڈ کھل سکتا ہے تو ایل او سی پر اسلام آباد کی طرح کنٹینر لگانے کی کیا معنی ہے، آج کے عمران نیازی آزاد کشمیر میں ایل او سی اور پاکستان میں اسلام آباد دونوں میں آزادی مارچ کرنے والوں کو ایک ہی انداز میں کنٹینر لگا کرروک رہے ہیں اس سے کشمیر کے حوالے سے ان کی سنجیدگی کا احساس ہوجاتا ہے۔