اسلام آباد(آن لائن) وفاقی دارالحکومت کی عدالت عالیہ نے جمعیت علمائے اسلام(ف) کے آزادی مارچ اور دھرنے کیخلاف دائر درخواست پر سماعت قبل ازوقت قرار دے کر ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دی ہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہرمن اللہ نے درخواست گزار حافظ احتشام کی اپیل پر سماعت کی۔
تاہم وہ اپنے دلائل سے عدالت کو مطمئن نہیں کر سکے۔درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ مولانا فضل الرحمان تحفظ ختم نبوت اور ناموس رسالت کا نام استعمال کر رہے ہیں، اس سے قبل فیض آباد میں بھی اسی نوعیت کا دھرنا ہو چکا ہے جس پر عدالت عظمیٰ نے ایک فیصلہ دیا تھا۔حافظ احتشام نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ڈیموکریسی پارک کو دھرنے کے لیے مختص کر رکھا ہے۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ احتجاج کرنا بنیادی حق ہے لیکن باقیوں کا بھی حق ہے کہ وہ اس سے تنگ نہ ہوں، 2014 میں بھی اس عدالت نے کہا تھا کہ مظاہرین کا حق ہے کہ وہ دھرنا دے سکیں۔عدالت عالیہ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ 2014 میں اس عدالت نے پی ٹی آئی دھرنے پر حکم دیا تھا کہ مجسٹریٹ اجازت دے اور یہ ڈپٹی کمشنر کا کام ہے کہ وہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد کرے۔جج نے ریمارکس دیے کہ دھرنا دینے والے سپریم کورٹ اور اس عدالت کے فیصلے کے پابند ہیں۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست گزار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی درخواست قبل از وقت کیوں کہ ابھی تو دھرنے کے لئے کسی نے درخواست ہی نہیں دی۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پی ٹی آئی مارچ کے وقت بھی ڈپٹی کمشنر کو اس وقت بھی ہم نے پابند کیاتھا کہ دھرنے والے اجازت لیں ورنہ نہیں کرسکتے۔
ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا کام ہے کہ وہ دھرنے کوریگولیٹ کرے، آپ کی درخواست قبل از وقت ہے کیونکہ انہوں نے ابھی اجازت ہی نہیں مانگی نہ خلاف ورزی کی، قانون پرعمل درآمد کرانا اسلام آباد انتظامیہ کی ذمہ داری ہے، ابھی کچھ بھی نہیں ہوا اور اجازت کے بغیر کوئی دھرنا نہیں دے سکتا، احتجاج بنیادی حق ہے لیکن اس سے شہریوں کو پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔عدالت درخواست گزار کو وکیل کرانے کا وقت دیتے ہوئے ایک ہفتے کے لیے سماعت ملتوی کردی۔