کارگل جنگ کا وہ ہیرو جو تین دن تک بھارتی فوج کو وائرلیس پر پیغام دیتا رہا کہ ”آ کر اپنے سپاہیوں کی لاشیں لے جاؤ“، کارگل کے میدان جنگ میں پاکستان فوج کے شیر دل جوانوں اور افسروں نے بہادری اور جرأت کی ایسی داستان رقم کی تھی کہ اگر سیز فائر نہ کیا جاتا تو مٹھی بھر یہ پاکستان کے بہادر بیٹے بھارت کو عبرت ناک شکست کے بعد مقبوضہ کشمیر بھی واپس حاصل کر لیتے۔
کارگل جنگ میں تاریخ کے ناقابل یقین واقعات بھی سامنے آئے، ایک پاکستانی فوجی افسر کی بہادری و جرأت کا بے مثال واقعہ ہے، جس میں اس کی اخلاقی جرأت بھی سامنے آتی ہے، کارگل جنگ میں پاک آرمی نے عسکری تاریخ کے کئی نمایاں کارنامے انجام دیے، کیپٹن کاشف اپنے چودہ جوانوں کے ساتھ کارگل کی جنگ میں ایسی پوسٹ پر موجود تھے جب 21 مئی کو دشمن کے اڑھائی سو فوجیوں نے بھاری اسلحہ سے لیس ہوکر ان سے پوسٹ چھیننے کی کوشش کی تو انہوں نے کسی جانی نقصان کے بغیر دشمن کو ایسا سبق سکھایا کہ وہ اپنی 48 لاشیں چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو گیا۔ یہ روداد کیپٹن کاشف نے ایک ٹی وی پروگرام میں معین اختر کو سنائی تھی کہ جب دشمن کے سپاہی بھاگ رہے تھے تو ان کے افسر اپنے جوانوں کو پکڑ کر روکنے کی کوششیں کرتے رہے مگر وہ اپنا اسلحہ پھینک کر بھاگ نکلے، سپاہیوں کے اس عمل پر بھارتی افسر بھی سپاہیوں کو گالیاں دیتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے۔ کیپٹن کاشف نے مزید کہا کہ میں نے دشمن کا بھاری اسلحہ قبضہ میں لیا تو اس میں روی نام کے ایک سپاہی کی سرکاری بک بھی شامل تھی، اس معرکہ میں ہمارے سپاہیوں کا جوش و جذبہ دیکھنے کے قابل تھا۔ انہوں نے بتایا کہ دشمن نے اس معرکہ کے دو دن بعد پھر یلغار کی اور 90 بھارتی سپاہیوں نے بڑی ہوشیاری سے ہماری ساتھ والی پوسٹ پر حملہ کردیا۔ کیپٹن کاشف نے کہا کہ ان کی پوزیشن ایسی تھی کہ اگر ان پر پیچھے سے اٹیک نہ کیا جاتا تو وہ پوسٹ پر حاوی ہو جاتے۔
انہوں نے کہا کہ میں پوسٹ خالی نہیں چھوڑنا چاہتا تھا اس لیے تین جوانوں کو ساتھ لیا اور مشین گن لے کر دشمن پر عقب سے حملہ کردیا۔ اس اچانک حملہ سے دشمن بوکھلا گیا اور 19 لوگوں کی لاشیں چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو گیا۔ کیپٹن کاشف نے بتایا کہ اب صورتحال یہ تھی کہ بھارتی فوجیوں کی لاشیں گلنے سڑنے لگیں، ان سے بدبو آنے لگی۔ کیپٹن کاشف نے بتایا کہ میں نے اپنے کمانڈنٹ آفیسر کرنل امجد شفیق سے رابطہ کیا اور ان سے کہا کہ
وہ اجازت دیں تو وائرلیس پر دشمن سے رابطہ کرکے انہیں کہا جائے کہ وہ اپنے سپاہیوں کی لاشیں اٹھا کر لے جائیں۔ کیپٹن کاشف نے کہا کہ مجھے دشمن کی وائرلیس فریکوینسی کا علم تھا، انہوں نے کلو ون،کلو ٹو،کلو تھری کے نام سے اپنے وائرلیس کوڈ رکھے ہوئے تھے۔ دشمن کا کلو تھری میں آپریشن کیمپ تھا، میں نے کلو تھری سے رابطہ کیا اور جب کہا کہ ہم بھارتی فوجیوں کی لاشیں واپس کرنا چاہتے ہیں تو وہ پریشان ہوگئے۔ کیپٹن کاشف نے بتایا کہ ان کے افسر نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم تمہارے علاقے سے لاشیں اٹھانے آئیں اور تم ہم پر فائر نہیں کھولو گے، وہ سمجھ رہاتھا شاید ہم ان کے ساتھ کوئی چال چل رہے ہیں۔
کیپٹن کاشف نے بتایا کہ میں نے اس سے کہا کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم کسی لاش کی بے حرمتی برداشت نہیں کر سکتے، چاہے وہ دشمن کی ہو۔ اخلاقی اور انسانی تقاضے کے تحت تم لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ اپنے سپاہیوں کی لاشیں اٹھا کر لے جاؤ اور اپنے چار چار لوگوں کو بھیج دو تاکہ وہ ایک ایک کرکے لاشیں اٹھا کر واپس چلے جائیں، اگر انہوں نے لاشوں سے آگے پیچھے ہونے کی کوشش کی اور کوئی شرارت کی تو ان کا انجام بھی ان کے ساتھیوں جیسا ہو گا۔ کیپٹن کاشف نے بتایا کہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ میں تین دن تک بھارتی فوجیوں کو یہ پیغام دیتا رہا، پھر چوتھی رات چار سپاہی اندھیرے میں ٹارچ کی روشنی کرتے ہوئے آئے، وہ سب ڈرے سہمے ہوئے تھے، میں نے ان سے کہا ڈرو نہیں، لاشیں اٹھالو وہ ایک ایک لاش اٹھا کر واپس لے گئے۔ یہ عسکری تاریخ کا ایک یادگار واقعہ ہے۔