جمعہ‬‮ ، 27 دسمبر‬‮ 2024 

خطے میں مزید تنازع نہیں چاہتے، پاکستان نے سعودی عرب اور ایران میں کشیدگی کے حوالے سے دوٹوک اعلان کردیا

datetime 7  اکتوبر‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ملتان (این این آئی)وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ایران اور سعودی عرب ہمارے برادر ملک ہیں اور ہماری کوشش ہے ان کے درمیان غلط فہمیاں دور ہوں کیونکہ ہم نہیں چاہیں گے کہ خطے میں کوئی نیا تنازع ہو،سی پیک پر چین اور پاکستان دونوں مطمئن ہیں، ہم اگلے فیز کی جانب آگے بڑھ چکے ہیں، مجھے کوئی پریشانی نہیں دکھائی دیتی،پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کو مطمئن کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہا ہے،

بھارت اس وقت کسی کو بھی مقبوضہ کشمیر لے جانے کی پوزیشن میں نہیں، اگر مقبوضہ کشمیر میں سب ٹھیک ہے تو بھارت نے امریکی سینیٹر کو جانے سے کیوں روکا؟ اپوزیشن پوری صورتحال سے واقف ہے، مولانا فضل الرحمٰن کشمیر کی صورتحال جانتے ہیں، ان کی آنکھوں سے کوئی چیز اوجھل نہیں، اس کے باوجود وہ جو کر رہے وہ ان کی سیاسی ضرورت ہے۔ پیر کو صحافیوں سے بات چیت کے دور ان سی پیک کے حوالے سے سوال پر شاہ محمود قریشی نے کہاکہ اس پر کوئی تشویش والی بات نہیں، اپوزیشن اسے بلاوجہ اٹھاتی ہے، چین اور پاکستان دونوں مطمئن ہیں، ہم اگلے فیز کی جانب آگے بڑھ چکے ہیں، مجھے کوئی پریشانی نہیں دکھائی دیتی۔فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایم) سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بینکانک میں اپنا نقطہ نظر پیش کیا اور جو اقدامات ہم نے اٹھائے وہ ایشیا پیسیفک گروپ کے سامنے رکھے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کافی حد تک ان دوستوں کو مطمئن کرچکا ہے کہ ہم سنجیدہ ہیں اور ہم نے منی لانڈرنگ کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے ہیں اور دہشت گردی کے لیے مالی معاونت چیک کرنے کے لیے موجودہ حکومت نے جو اقدامات اٹھائے وہ ایک دہائی میں نہیں اٹھائے گئے۔انہوں نے کہا کہ بھارت کی کوشش ہے کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں دھکیلا جائے لیکن مجھے امید ہے کہ پاکستان کے اقدامات کو مدنظر رکھتے ہوئے پیرس میں ہونے والے سیشن میں ہمارے نقطہ نظر کو اہمیت دی جائیگی۔

وزیراعظم کے دورہ چین سے متعلق انہوں نے کہاکہ وزیراعظم 3 روزہ دورے پر چین جارہے ہیں، میں اور آرمی چیف ان کے ساتھ ہوں گے اور وہاں چینی صدر اور وزیراعظم سے ملاقات ہوگی اور ان کمپنیز اور لوگوں سے بھی ملاقات ہوگی جو پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ چین کے صدر عنقریب بھارت کے ایک غیر رسمی یا غیرسرکاری دورے پر جارہے ہیں، تاہم چین کے ساتھ ہمارے گہرے روابط ہیں، ہم مختلف معاملات پر ایک دوسرے کو اعتماد میں لیتے ہیں،

بین الاقوامی اور علاقائی معاملات پر ہماری مشاورت اور تعاون رہتا ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ان کی خواہش بھی تھی اور ہماری خواہش بھی ہے کہ چینی صدر کے بھارت جانے سے قبل ہم مختلف علاقائی معاملات پر ایک صفحے پر ہوں، لہٰذا ان کے ساتھ نشست کافی مفید رہے گی۔انہوں نے کہا کہ بھارت اس وقت کسی کو بھی مقبوضہ کشمیر لے جانے کی پوزیشن میں نہیں ہے،

جہاں کرفیو کو 62 روز ہوگئے ہیں، جہاں بنیادی حقوق سلب ہیں، جہاں امریکی سینیٹر کو ان کی خواہش کے باوجود بھارت نے انہیں مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت نہیں دی۔وزیرخارجہ نے کہا کہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر مقبوضہ کشمیر میں سب ٹھیک ہے تو بھارت نے امریکی سینیٹر کو جانے سے کیوں روکا؟ انہوں نے بتایا کہ امریکی سینیٹر نے آزاد کشمیر جانے کی خواہش کی تو

ہم نے کہا کہ بالکل آئیں اور میری اطلاعات کے مطابق وہ ایک روز قبل آزاد کشمیر گئے۔انہوں نے کہا کہ کوئی امریکی سینیٹر، کانگریس رکن، کوئی یورپی اور برطانوی پارلیمنٹ کا رکن، جنہوں نے مقبوضہ کشمیر کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے، اگر وہ پاکستان آنا چاہتے ہیں تو ہم انہیں خوش آمدید کہیں گے اور ہر وہ سہولت فراہم کریں گے جس کی وہ خواہش کریں گے تاکہ وہ موقع پر جاکر

لوگوں سے مل کر اپنا تاثر قائم کریں تاہم انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہوگی کہ ان لوگوں کا مطالبہ ہونا چاہیے کہ انہیں مقبوضہ کشمیر میں بھی جانے کی اجازت ملے تاکہ وہ وہاں کی صورتحال کو دیکھ کر ایک تقابلی جائزہ اپنے ایوانوں کے سامنے پیش کریں اور بتائیں کہ بھارت جو کہہ رہا اس میں اور حقائق میں کتنا فرق ہے۔ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ

انسانی حقوق کی تنظیمیں کھل کر سامنے آگئیں اور اب وہ بھارت کے اقدامات پر تنقید کر رہی ہیں، اس کے علاوہ حکومتوں کے پارلیمان نے بھی اس پر بولنا شروع کردیا ہے، اب بھارت کے اندر سے آوازیں اٹھنا شروع ہوگئیں۔بھارتی میڈیا کے بارے میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ لگتا ہے کہ بھارتی میڈیا اور وہاں کی عدلیہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے شدید دباؤ میں ہے۔

دوران گفتگو ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن پوری صورتحال سے واقف ہے، مولانا فضل الرحمٰن کشمیر کی صورتحال جانتے ہیں، ان کی آنکھوں سے کوئی چیز اوجھل نہیں لیکن اس کے باوجود وہ جو کر رہے وہ ان کی سیاسی ضرورت ہے۔مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ سے متعلق انہوں نے کہاکہ یہ ان کا جمہوری حق ہے لیکن ان کا وقت اور تاریخ غلط ہے

کیونکہ 27 اکتوبر وہ سیاہ دن ہے جس روز بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کیا تھا، ہر سال یہ روز یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے، لہٰذا جتنے کشمیری ہیں ان کے جذبات مجروح ہوں گے اگر 27 اکتوبر کو وہ سیاست سے منسلک کریں گے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کے عوام مولانا فضل الرحمٰن کے 27 تاریخ کے فیصلے کو پسند نہیں کر رہے، میں سمجھتا ہوں اس وقت اس احتجاج کی ضرورت نہیں کیونکہ اس وقت دنیا کی توجہ کشمیر پر ہے۔اس موقع پر انہوں نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام ہند بھارت کہ وہ مسلم جماعت ہے جس نے 5 اگست کے بھارتی فیصلے کی تائید کی ہے، کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن جماعتیں اس کی مخالفت کر رہی ہیں، لہٰذا یہاں اگر 27 اکتوبر کو وہ تاثر جاتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔خلیج کی کشیدگی سے متعلق انہوں نے کہاکہ ایران اور سعودی عرب ہمارے برادر ممالک ہیں، ہمارے دونوں کے ساتھ اچھے رابطے ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ ان کی غلط فہمیاں دور ہوں کیونکہ ہم نہیں چاہیں گے کہ خطے میں کوئی مزید تنازع شروع ہو، اس سلسلے میں ہم جو کردار ادا کرسکتے تھے، اس کی کوششوں کا آغاز کردیا ہے اور مزید کوششیں جاری ہیں۔آر ایس ایس سے متعلق سوال پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت نے انہیں خود دہشت گرد قرار دیا ہوا ہے، انہوں نے نہرو اور گاندھی کے ہندوستان کا چہرہ اور تعارف اس کو بری طرح متاثر کیا ہے۔



کالم



کرسمس


رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…