لاہور( آن لائن)لاہور ہائی کورٹ نے کالعدم جماعت الدعو ۃکے سربراہ حافظ محمد سعید و دیگر رہنماؤں کے خلاف درج مقدمات کے اخراج کے لیے دائر درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرلیا۔عدالت عالیہ میں جسٹس قاسم خان اور جسٹس اسجد جاوید گھرال پر مشتمل بنچ نے درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ایک ہی نوعیت کی 24 ایف آئی آرز ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ حافظ سعید اور دیگر ہیں جبکہ میرے موکل اور دیگر نامزد لوگ دہشت گرد نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ حافظ سعید کی جن پراپرٹیز کا ایف آئی آر میں ذکر کیا گیا ہے وہ مدرسے ہیں، اس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ ہمیں اس کیس سے متعلق آگاہ نہیں کیا گیا۔بعد ازاں عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرلیا، ساتھ ہی پنجاب حکومت اور محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔واضح رہے کہ عدالت میں جماعت الدعوۃ کی ذیلی تنظیم کے سیکریٹری ملک ظفر اقبال نے حافظ سعید سمیت 65 رہنماں کے خلاف درج مقدمات کے اخراج کے لیے درخواست دائر کی تھی۔اس درخواست میں وفاقی اور پنجاب حکومت، ریجنل ہیڈ کوارٹرز سی ٹی ڈی کو فریق بنایا گیا تھا۔ملک ظفر اقبال جن کا نام پولیس رپورٹس میں بھی ہیں، ان کی طرف سے دائر درخواست کے مطابق مقدمات کا اندراج ‘بغیر قانونی اختیار کے ہے اور یہ قانونی طور پر موثر نہیں۔درخواست میں کہا گیا تھا کہ جس پراپرٹی کے بارے میں سوال کیا جارہا وہ مسجد کے لیے تھی اور اسی مقصد کے لیے اس کا استعمال ہوا، لہذا درج کی گئی 23 ایف آئی آرز ‘قانونی اختیار کے بغیر ہیں ۔
۔ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس پراپرٹی کو ‘کبھی بھی یہ جگہ دہشت گردی کی مالی معاونت کے لیے استعمال نہیں ہوئی اور ہی ان سنگین الزامات کی حمایت میں ریکارڈ پر کوئی ناقابل تردید ثبوت ہیں ‘۔درخواست کے مطابق ان مقدمات میں حافظ محمد سعید پر کالعدم عسکریت پسند گروپ لشکر طیبہ کے سربراہ ہونے کا الزام ‘حقیقت میں اور قانونی طور پر بے بنیاد ہے۔عدالت میں دائر درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت یہ قرار دے کہ درخواست گزاروں اور اس کے ساتھیوں کا لشکر طیبہ سے کوئی تعلق نہیں، لہذا یہ ایف آئی آرز ‘بغیر قانونی اختیار ہے ہیں اور یہ قانونی طور پر موثر نہیں ‘۔واضح رہے کہ 3 جولائی کو کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید اور نائب امیر عبدالرحمن مکی سمیت اعلی قیادت کے 13 رہنمائوں پر انسانی دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے مالی معاونت کے تقریبا 2 درجن سے زائد کیسز درج کیے گئے تھے۔