اسلام آباد( آن لائن ) سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے قتل کے الزام میں گرفتار 7 ملزمان کو شک کی بنیاد پر بری کردیا۔سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ویڈیو لنک کے ذریعے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے متفرق کیسز کی سماعت کی۔ڈکیٹی کرنے اور اس دوران محمد اشرف نامی شخص کے قتل کے مقدمات کی سماعت میں
عدالت نے ریمارکس دیے کہ پولیس اور مدعی پارٹی نے مل کر کہانی ترتیب دی۔عدالت نے مزید ریمارکس دیے کہ مقتول کا پوسٹ مارٹم 14 گھنٹے کی تاخیر سے کیا گیا جبکہ گواہان کو بعد میں خود سے بنایا گیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عام طور پر ڈکیتی کے مقدمات میں علاقے کی پولیس کو معلوم ہوتا ہے کہ واردات کس نے کی۔چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ لیکن آپ کہہ رہے ہیں کہ ملزمان پہلے کسی قسم کی مشکوک سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہے۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ 2 واقعات ہوئے جن میں ایک ڈکیٹی جبکہ دوسرا قتل کا ہے، ملزمان ٹریکٹر ٹرالی کے ذریعے جائے وقوعہ پر پہنچے لیکن سائیڈ پلان میں اس کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ملزمان کے وکیل نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان کا مدعی کے ساتھ کسی قسم کا اختلاف نہیں تھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مدعی کے بھائی کا قتل ہوگیا، اسے معلوم نہیں کہ ایف آئی آر درج کروانی ہے۔انہوں نے واقعے سے متعلق ریماکس دیے کہ عجیب بات ہے کہ ملزمان ڈکیتی کے دوران شناختی کارڈ اور بجلی کا بل بھی اپنے ساتھ لے گئے، آج کل تو مہنگائی کی وجہ سے مالک کو بجلی کا بل بھرتے ہوئے مشکل ہوتی ہے اور ڈاکو بل بھرنے کے لیے اپنے ساتھ لے گئے۔عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد لاہور ہائی کورٹ کا سزائے موت کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزمان کو شک کی بنیاد پر بری کردیا۔خیال رہے کہ مذکورہ واقعہ 2004 میں قصور میں پیش آیا تھا، تاہم ٹرائل کورٹ نے ساتوں ملزمان امجد علی، محمد خالد ظفر اقبال، عبد القیوم، منظور احمد، محمد طارق اور محمد اکرم عرف ڈاکو کو سزائے موت کی سزا سنائی تھی، جبکہ ہائی کورٹ نے ملزمان کی سزا عمر قید میں تبدیل کردی تھی۔