کراچی (این این آئی) وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ بھر میں زیر زمین پانی آلودہ ہوچکا ہے،وہ ماہرین اور ڈونر ایجنسیز کے ساتھ رابطے میں ہیں کہ وہ اسکی روک تھام کے لیے کچھ کریں۔ انھوں نے کہا کہ ان کی حکومت صوبے کے دیہی علاقوں میں پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کی اسکیمیں فراہم کررہی ہے اور اسی طرح زیر زمین پانی کے معیار اور اسے ریفریش کرنے کے حوالے سے حکمت عملی وضع کرنے کے لیے ایک اور منصوبے پر کام کررہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ آلودہ پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ منچھر جھیل میں جمع ہے اور ہم ورلڈ بینک اور یورپین ڈونر اور ماہر ایجنسیز کے ساتھ منچھر جھیل کو ریفریش اور واش کرنے کے حوالے سے ایک منصوبے پر کام کررہے ہیں تاکہ منچھر جھیل کے شاندار ماضی کو بحال کیا جاسکے۔ انھوں نے یہ بات آئندہ مالی سال کے لیے ترقیاتی اسکیموں کو حتمی شکل دینے کے حوالے سے مختلف اجلاسوں کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔ محکمہ پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ کے اجلاس میں صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی، چیئرپرسن پی اینڈ ڈی ناہید شاہ، سیکریٹری پی ایچ ای روشن شیخ، سیکریٹری بلدیات خالد حیدر شاہ، اسپیشل سیکریٹری خزانہ آصف جہانگیر، ممبر (سروسز) پی اینڈ ڈی فتاح تنیو، محکمہ پی ایچ ای کے چیف انجنیئر اور دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی۔ وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ بھر میں ماسوائے چند اضلاع کے زیر زمین پانی جو استعمال ہوتا ہے وہ میٹھا اور تازہ ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسکا معیار خراب ہوتا جارہا ہے، جسکے نتیجہ میں حکومت نے اسے آر او پلانٹ پر منتقل کیا تاکہ دیہی علائقوں میں پینے کے پانی کی ضروریات سے نبردآزما ہوا جاسکے۔ انھوں نے کہا کہ ان مسائل کا اٹل حل زیر زمین پانی کا معیار بہتر بنانے کے لیے سائنٹیفک اپروچ کو اختیار کرنے میں ہے جسکے لیے نئے ورلڈ بینک کو دیگر اینجنسیوں کے ساتھ کام کررہا ہوں تاکہ زیر زمین پانی کی بحالی اور اسے ریفریش کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ وضع کیا جاسکے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ محکمہ پی ایچ ای صوبے کے دیہی علائقوں میں پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کی اسکیموں کے حوالے سے اپنی خدمات کے لحاظ سے ایک نہایت اہم ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ محکمہ اپنی جاری اسکیموں کو لازمی طور پر مکمل کرے تاکہ لوگ ان سے مستفیض ہوسکیں اور دیگر یا رہ جانے والے دیہاتوں کے لیے مزید اسکیمیں شروع کرنے کے لیے منصوبابندی کریں۔ سیکریٹری پی ایچ ای روشن شیخ نیوزیراعلی سندھ کو بتایا کہ آئندہ مالی سال میں 169 اسکیمیں ہیں،
جس میں 96 جاری اسکیمیں شامل ہیں باقی ماندہ نئی اسکیمیں مکمل کی جائیں گی جن پر لاگت کا تخمینہ 26.7 بلین روپے ہے۔ انھوں نے کہا کہ مکمل ہونے والی اسکیموں میں 39 پانی کی فراہمی کی جاری اسکیمیں اور 57 نکاسی آب کی جاری اسکیمیں ہیں جوکہ رواں سال کے دوران مکمل ہوئی ہیں۔ پانی کی فراہمی کی 28 نئی اسکیمیں اور 15 نکاسی آب کی اسکیمیں آئندہ مالی سال اور موجودہ کیلنڈر ییئر میں مکمل ہونگی۔صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی نے وزیراعلی سندھ کو بتایا کہ رواں مالی سال کے دوران انکا محکمہ 13.5 بلین روپے کی 100 اسکیمیں مکمل کرے گا۔
وزیراعلی سندھ نے کہا کہ آئندہ مالی سال میں وہ کراچی کو چند اہم اسکیمیں دیں گے جس میں سڑکیں، فلائی اوور اور اہم مقامات کی بیوٹی فکیشن کی اسکیمیں شامل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کرچی کے دیہی علائقوں کو بھی آئندہ اے ڈی پی اہمیت دی جائے گی۔ محکمہ ایجوکیشن کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کو صوبائی وزیر تعلیم سید سردار شاہ نے بتایا کہ سندھ میں 9600 اسکولز چھت کے بغیر ہیں جس میں سے صرف 71 یونٹس میں 100 کے قریب انرولمنٹس ہیں۔ جس پر وزیراعلی سندھ نے پالیسی فیصلہ لیتے ہوئے کہا کہ چھت کے بغیر اسکول جس میں تقریبا 40 انرولمنٹ ہونی چاہیے کو قریبی سرکاری اسکول میں منتقل کیا جائے۔
وہ اسکول جس میں طلبا کی تعداد 40 سے کم ہے اسے (چھت کے بغیر) اسکول، نہیں کہا جاسکتا لہذہ ایسے اسکولوں کو چھت کے بغیر اسکولوں کی فہرست سے فارغ کردیا جائے۔ وزیراعلی سندھ نے محکمہ تعلیم کو ہدایت کی کہ وہ اساتذہ کی تربیتی پروگراموں پر توجہ مرکوز کرے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے اساتذہ اچھی تربیت کے حامل ہونے چاہیں تاکہ وہ اپنی ٹیچنگ کے مہارت سے ترقی دے سکیں۔ ایک اور فیصلہ کرتے ہوئے وزیراعلی سندھ نے محکمہ تعلیم کو ہدایت کی کہ وہ 160 اسکول کی خطرناک عمارتوں کو دوبارہ تعمیر کریں۔ انھوں نے کہا کہ چند اسکولوں کی عمارتیں بہت زیادہ پرانی ہوچکی ہیں لہذہ انکی دوبارہ مرمت یا ری وپمنگ کی جائے۔ وزیراعلی سندھ
نے محکمہ ورکس اینڈ سروسز کے ایک اور اجلاس کی صدارت کی جس میں انھیں بتایا گیا کہ محکمہ کی 349 اسکیمیں تھیں، جس میں 33.5 بلین روپے ایک نئی اسکیم بھی شامل ہے کے لیے 26.5 بلین روپے جاری کیے جاچکے ہیں اور جاری کردہ فنڈز کا 90 فیصد استعمال ہوچکا ہے۔ صوبائی وزیر ورکس اینڈ سروسز سید ناصر شاہ نے کہا کہ ان 348 اسکیموں میں، 326 ہائی ویز کی ہیں، 14 تھرکول کی۔ تھرکول کی اسکیمیں جوکہ تھرکول نے محکمہ ورکس کو منتقل کی ہیں ان میں سے تین اسپشل انیشیٹو ڈپارٹمنٹ اور چھ بلڈنگز کی زیر عمل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ 349 اسکیموں میں سے 108 اسکیمیں بشمول محکمہ بلڈنگ کی ایک رواں مالی سال کے آخر تک مکمل ہوجائے گی اور باقی ماندہ آئندہ مالی سال کے دوران مکمل ہوجائیں گی۔وزیراعلی سندھ کو بتایاگیا کہ محکمہ کی 18.1 بلین روپے کی 56 اسکیمیں ہیں جوکہ رواں مالی سال کے آخر تک مکمل ہوجائیں گی۔
ایک سوال پر صوبائی وزیر آبپاشی سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ چند اسکیمیں جو مکمل کردی جائیں گی ان میں وسطی کوہستان میں واقع، انگئی۔II نئی کے ساتھ ریچارج ڈیم کی تعمیر، ڈیلان، نیگ اور مزرانی نے تین ریچارج ڈیموں کی تعمیر، بالائی کوہستان کے علاقے میں ریچارج ڈیم کی تعمیر، اسر سیلار گوٹھ بن قاسم میں دو چھوٹے ڈیمز کی تعمیر، روہڑی کینال نزد رانی پور میں اسٹون پچنگ کی تعمیر، ایل بی او ڈی مین سم نالہ کے اوپر پل کی تعمیر اور حاجی علی احمد مہری تا ٹی ایم خان سے نالے کی تعمیر اور دیگر مختلف اسکیمیں شامل ہیں۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ وہ بجٹ کے منظوری کے فورا بعد چند اسکیموں کا اچانک دورہ کریں گے۔ وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے نامور شیعہ علما علامہ عباس کمیلی کی وفات پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک اچھے اسکالر اور ایک عظیم انسان تھے، انکی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ انھوں نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ وہ مرحوم کی روح کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور سوگوار خاندان کو اس ناقابل تلافی نقصان کو برداشت کرنے کا حوصلہ عطا فرمائے۔