لاہور(این این آئی)معاشی تجزیہ کاروں نے مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں 150بیسس اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے کے نتیجے میں خود حکومت سب سے زیادہ متاثر ہو گی اور مقامی قرضوں پر سود کی مد میں 300ارب کا فرق پڑ جائے گا،شرح سود میں اضافے سے بینکوں سے قرض لے کر کی جانے والی سرمایہ کاری کے رجحان میں کمی ہو گی جس سے معیشت سست روی کا شکار ہو گی۔
معاشی تجزیہ کار مزمل اسلم نے مرکزی بینک کے فیصلے پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خود حکومت مقامی سطح پر بڑے پیمانے پر قرضے لیتی ہے اس لئے خود حکومت سب سے زیادہ متاثر ہو گی اور کم از کم سود کی مد میں 300ارب کا فرق پڑ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مقامی سطح پر بینکوں سے قرضے لے کر سرمایہ کاری کی جاتی ہے اس رجحان میں بھی کمی آئے گی جس سے معیشت سست روی کا شکار ہونے سے معیشت کو مزید چیلنج درپیش ہوں گے۔ معاشی تجزیہ کار اکبر زیدی نے شرح سود میں 150بیسس اضافے پر اپنے رد عمل میں کہا کہ یہ طے تھاکہ مانیٹری پالیسی میں 100سے 200بیسس کے درمیان اضافہ ہوگا اور یہ تباہی کا شکار معیشت پر ایک اور حملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی ڈی پی پہلے ہی تین فیصد پر آ گئی ہے اور شرح سود بڑھنے سے قومی پیداوار کی شرح مزید کم ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ سمجھ نہیں آتی ان اقدامات کے ساتھ ملک کیسے چلے گا بلکہ حکومت پر مقامی قرضے اور سود مزید بڑھے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے بینکوں سے قرضے لے کر کام کرنے والی بڑی کمپنیز کیلئے مسائل پیدا ہوں گے جس سے معیشت کو مزید دھچکا لگے گا۔ فرحان بخاری نے مانیٹری پالیسی کے اعلان پر اپنے رد عمل میں کہا کہ آپ آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام طے کر رہے ہیں،جو ڈائریکشن ہے اس کے مطابق عملدرآمد بھی کیا جارہا ہے، اس فیصلے سے کاروبار کیلئے حالات مزید مشکل ہو جائیں گے اور معیشت اور سرمایہ کاری میں سست روی کا رجحان غالب رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے ان تمام لوگوں کو فرق پڑے گا جو بینکوں پر انحصار کرتے ہیں او رخاص طو رپر آٹو موبائل اور لیزکے بزنس میں فرق آئے گا۔