کراچی(این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان کے موبائل سروس کی پری پیڈ اور پوسٹ پیڈ سروسز پر سندھ سیلز ٹیکس (ایس ایس ٹی)ختم کرنے سے صوبائی حکومت کو 10 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ اس بات کا اظہار چیئرمین سندھ ریونیو بورڈ (ایس آر بی)خالد محمود نے وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی صدارت میں وزیراعلی ہاؤس میں منعقدہ ایک اجلاس میں کیا۔ چیئرمین ایس آر بی نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے پری پیڈ اور پوسٹ پیڈ موبائل سروس پر ٹیکس کے خاتمہ سے اب تک تقریبا 10 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔
انھوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ رواں مالی کے دوران ابتر معاشی حالات کی باعث کارپوریٹ اور سرکاری تشہیر میں کمی نے صوبائی حکومت کو 3 ارب روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ وہ ملک کی مالی صورتحال سے بخوبی واقف ہیں، لہذہ ایس آر بی کے اہداف کو حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں بہت مطمئن ہوں کہ ایس آر بی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ وزیراعلی سندھ نے ایس آر بی، محکمہ ایکسائیز و ٹیکسیشن، بورڈ آف روینیو، محکمہ توانائی، محکمہ مائینز اینڈ منرل کی وصولیوں کا مجموعی جائزہ لیا۔ تمام محکموں نے تقریبا اپنے اہداف حاصل کرلیے ہیں اور مالی سال کے اختتام تک وہ کامیابی سے حاصل بھی کرلیتے ہیں۔وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ 19-2018 کے دوران سخت معاشی حالات میں کاروباری اداروں کو ایک جگہ دینے کے لیے کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیاگیا، اس حقیقت کے باوجود ایس آر بی آمدن کے مجموعی اہداف کے حصول کو ممکن کرنے جارہا ہے۔ اس موقع پر چیئرمین سندھ ریونیو بورڈ(ایس آر بی)خالد محمود نے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلی سندھ کو 18-2017 کی سالانہ رپورٹ بھی پیش کی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 18-2017 کئی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ ایس آر بی نے 100 ارب روپے کا ہدف عبور کیا، اس سال میں 27 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس میں سندھ ورکرز ویلفیئر فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف)اور سندھ کمپنیز کے منافع(ورکرز کی شراکت داری)کے فنڈ کے لئے 8 ارب روپے کا مجموعہ شامل ہے کہ ایس آر بی کو حکم دیا گیا ہے کہ صوبے کے لئے لازمی جمع کرنا ہے۔
اس رپورٹ میں چیئرمین ایس آر بی کا کہنا ہے کہ سال کے دوران سیلز ٹیکس کی معیاری شرح 13 فیصد رہی جوکہ ملک میں کسی بھی ٹیکس ڈومین سے کم ہے، چاہیے وفاقی ہو یا پھر صوبائی۔ کلیکشن کی کاوشوں نے سستی کے حامل اقتصادی بحالی سے چیلجنز کو پورا کیا ہے، سال کے آخری سہ ماہی میں سیاسی منتقلی کے اثرات سے نمٹنے کے قابل ہے۔ سندھ حکومت کی مسلسل سپورٹ اور ٹیکس دہندگان کے اعتماد نے 27 فیصد کی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ سالانہ رپورٹ کے مطابق ٹیلی کمیونیکیشن، بندرگاہوں اور آپریٹرز، بینکوں، انشورنس اعدام اور فرنچائیز سروسز اہم شراکتدار رہے۔
بزنس سپورٹ اور لیبر و افرادی قوت سمیت دیگر سروسز کی طرف سے خاصہ وسیع اضافہ کیا گیا۔ گزشتہ برس میں 63 فیصد کے مقابلے میں کل دس شعبوں نے مجموعی طور پر 57 فیصد حصہ لیا۔ سروسز کے اب تک نافذ کرنے سے بچنے کے لئے مسلسل کوشش کی ضرورت ہے۔دستاویزی شدہ ترانزیکشن پر قومی اور صوبائی ٹیکس کے ڈومینز کے ذریعہ دوبارہ تجدید سے کام کو بڑھانے کا امکانات ہیں۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ سندھ حکومت نے پالیسی ساز فیصلہ کیا ہے کہ نہ ہی نیا ٹیکس نافذ کریں گے اور نہ ہی 19-2018 کے لئے موجودہ سخت معاشی حالات میں کاروباری اداروں کو ایک جگہ فراہم کرنا ہے۔ اس فیصلہ کا ایک الگ خاکہ ہے،
سال 19-2018 کے لئے 120 بلین روپے کا ہدف مقرر کیا جا رہا ہے، خاص طور پر چیلنج میں اضافہ ہوا ہے۔درین اثنا، وزیراعلی سندھ نے صوبائی حکومت کی مالی حیثیت کا جائزہ لینے کے لئے ایک محکمہ خزانہ کے اجلاس کی صدارت کی۔ محکمہ خزانہ کے مطابق بجت کے تخمینہ کے مطابق وفاقی حکومت کوموجودہ مالی سال کے دوران 605.3 ارب روپے کی منتقلی کی ہے۔ دس ماہ کے تخمینہ میں 504.4 ارب روپے کی آمدنی ہوئی لیکن انھوں نے سندھ حکومت کو صرف 380 ارب روپے منتقل کیے ہیں اور اس طرح 123.5 ارب روپے کی کمی کا سامنا ہے۔ وزیراعلی سندھ نے سست روی کا شکار جاری ترقیاتی منصوبوں کو تیز رفتاری سے مکمل کرنے کیلیے غیر ترقیاتی اخراجات اور محور ریلیز کو کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انھوں نے محکمہ خزانہ کو ہدایت کی کہ ضوری سروسز پر بجٹ جاری کریں۔