کراچی (این این آئی) بینک دولت پاکستان نے پاکستانی معیشت کی کیفیت پر مالی سال 19 کی دوسری سہ ماہی کی رپورٹ پیر کو جاری کردی۔ جیسا کہ رپورٹ میں کہا گیا، دوسری سہ ماہی کے آغاز پر دسمبر 2017 سے کیے جانے والے معاشی استحکام کے اقدامات کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ خاص طور پر زری سختی اور اس کے ساتھ ساتھ شرح مبادلہ میں ردوبدل، وفاقی حکومت کے ترقیاتی اخراجات میں کمی اور ضوابطی اقدامات سے ملکی طلب کو قابو کرنے میں مدد ملی،
جس کی عکاسی درآمدات میں نمایاں کمی سے ہوتی ہے۔ اس کے ہمراہ بیرونی طلب میں کمی ، خریف کی بڑی فصلوں کی توقع سے کم کارکردگی ، معینہ سرمایہ کاری قرضوں میں اعتدال کے باعث معاشی سرگرمیوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ دریں اثنا مہنگائی بڑھتی رہی جس کا بنیادی سبب لاگتی دبا کے عوامل اور زیرسطح طلب کا کسی قدر برقرار رہنا تھا۔رپورٹ کے مطابق مالی سال 19 کی دوسری سہ ماہی کے دوران اوسط عمومی مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت (CPI)بڑھ کر 6.5 فیصد ہوگئی جو مالی سال 15 کی پہلی سہ ماہی ، جب خام تیل کی عالمی قیمتیں 100 ڈالر فی بیرل کے لگ بھگ تھیں، سے اب تک بلند ترین سہ ماہی مہنگائی ہے۔ مہنگائی میں اضافے کا بڑا سبب اس کا بنیادی جز غیرغذائی غیر توانائی تھا جس کی رفتار مزید تیز ہوگئی کیونکہ شرح مبادلہ کی کمی کی منتقلی اور تیل کی بلند قیمتوں کے دور ثانی کے اثرات نے اس کی پہلے ہی بلند سطح کو بلند تر کردیا۔مزید برآں، رپورٹ میں بتایا گیا کہ مالی سال 19 کے آغاز سے ترقیاتی اخراجات میں نمایاں کٹوتی کے باوجود مالیاتی خسارہ بدستور بلند سطح پر رہا جس سے ملکی طلب کو قابو میں رکھنے کی کوششیں متاثر ہو رہی ہیں۔ محصولات کی وصولیوں میں کمی جبکہ جاری اخراجات میں اضافہ دیکھا گیا۔رپورٹ میں بیرونی شعبے کے حوالے سے کہا گیا کہ زیر جائزہ عرصے کے دوران جاری کھاتے کے خسارے میں بہتری دیکھی گئی، جس کی وجہ درآمدات میں کمی اور کارکنوں کی ترسیلاتِ زر میں خاصا اضافہ ہونا ہے ۔
تاہم عالمی طلب میں کمی نے برآمدات کو بالعموم متاثر کیا۔ خالص مالی رقوم کی آمد بھی گذشتہ برس کی نسبت کم رہی جس کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہو گئی تھی۔رپورٹ میں بجلی کے شعبے میں سرکاری انٹرپرائزز کے مالیاتی بوجھ کے تجزیے پر بھی خصوصی سیکشن شامل ہے۔ اس سلسلے میں دی گئی سفارشات میں یہ اقدامات شامل ہیں: وصولی کا طریقہ کار زیادہ موثر اور غیر سیاسی بنانے کی طرف پیش رفت، ترسیل اور تقسیم کے نیٹ ورک میں سرمایہ کاری، اور توانائی کے شعبے کی ایک مربوط پالیسی بنانے کے لیے قومی سطح پر اتفاقِ رائے کی تشکیل۔
سی پیک کے تناظر میں انسانی استعداد کی اہمیت پر بھی ایک خصوصی سیکشن رپورٹ میں شامل ہے۔ اس تجزیے میں ملک کے موجودہ انسانی سرمائے اور ملازمت کے ان مواقع پر نظر ڈالی گئی ہے جو مستقبل قریب میں سی پیک کے اگلے مرحلے میں داخل ہونے پر صنعتوں کے خصوصی اقتصادی زونز اور زراعت کے حوالے سے سامنے آنے والے ہیں۔ اس کے بعد اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ ان مواقع کا فائدہ اٹھانے کے لیے ملکی افرادی قوت کس حد تک تیار ہے، اور مہارتوں میں متعلقہ کمی دور کرنے کی غرض سے ایک لائحہ عمل بھی دیا گیا ہے۔وسیع تر تناظر میں رپورٹ انسانی سرمائے اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری بڑھانے کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔ اس طرح پیداواریت بڑھے گی اور ملکی مصنوعات، خدمات اور ہنر مند کارکنوں کی برآمدی استعداد میں اضافہ ہوگا، نیز زرِ مبادلہ میں بھی مستقلا اضافے کا راستہ کھلے گا۔