اسلام آباد (این این آئی)چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر) سید مزمل حسین نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کو بتایا ہے کہ مہمند ڈیم منصوبے پر کام آئندہ ہفتے شروع ہو جائیگا، ڈیم کی تعمیر سے پشاور، چارسدہ اور مردان میں سیلاب کا خطرہ دور ہو جائیگا، گولن گول پاور پراجیکٹ مکمل ہونے کے باوجود چترال میں گرڈ سٹیشن نہ ہونے کی وجہ سے بجلی علاقے کو نہیں مل رہی۔
منگل کو اجلاس کی صدارت کمیٹی کے چیئرمین نواب یوسف تالپور نے کی جبکہ اجلاس میں محمد فاروق اعظم ملک، شیخ راشد شفیق، علی نواز اعوان، چوہدری جاوید اقبال وڑائچ، نورین فاروق خان، حامد حمید، خواجہ محمدآصف کے علاوہ وزارت آبی وسائل، واپڈا، فیڈرل فلڈ کمیشن ، ارسا اور دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔ چیئرمین واپڈا نے اجلاس کو بتایا کہ ستمبر 2017 ء سے اپریل 2018ء تک مختلف منصوبوں سے 2487 میگاواٹ بجلی سسٹم میں واپڈا نے شامل کی ہے۔ مہمند ڈیم منصوبہ 40 سال سے تاخیر کاشکار تھا۔ اس منصوبے کی تکمیل سے 800 میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی اور 12 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کیاجا سکے گا۔ منصوبے کی مجموعی لاگت کا پی سی ون 309 ارب روپے تھا ۔ انہوں نے کہاکہ ٹھیکہ حاصل کرنے والی کمپنیوں سے مذاکرات کے بعد 18 ارب روپے ہم نے کم کرائے ہیں اور اب یہ 291 ارب روپے کا منصوبہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے وفاقی حکومت کو تجویز دی ہے کہ اگر 18 ارب روپے واپڈا کو دے دیئے جائیں تو بلوچستان میں نولانگ ڈیم کامنصوبہ بھی مکمل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ منصوبے پر کام اگلے ہفتے شروع ہوجائے گا۔ رابطہ سڑکیں اور کالونی دسمبر 2020ء تک بن جائے گی۔ سپیل وے کی تعمیر نومبر 2023ء تک ہو گی جبکہ آبپاشی کا نیٹ ورک دسمبر 2023ء تک مکمل ہو گا۔ ڈیم کا پاور ہاؤس جولائی 2024ء میں مکمل ہو گا اور جولائی میں ہی پانی کی بھرائی ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کے لئے 844 ایکڑ اراضی درکار تھی، مقامی افراد نے زمین منتقل کردی ہے۔ 37 فیصد فنڈز وفاقی حکومت فراہم کرے گی جبکہ 63 فیصد فنڈ کا انتظام واپڈا کریگا۔ انہوں نے کہا کہ گولن گول پاور پراجیکٹ مکمل ہو رہا ہے ۔ چترال کی بجلی کی ضرورت تقریباً18 میگاواٹ ہے لیکن پیسکو کی طرف سے گرڈ سٹیشن کی تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے چترال کو اس منصوبے سے مکمل بجلی فراہم نہیں کی جارہی اور ہم نے تیمر گرہ تک بجلی کی ٹرانسمیشن لائن بچھائی ہوئی ہے۔
چترال سے لوئر دیر تک 180 کلومیٹر لائن بچھا کر بجلی فراہم کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ کچھی کینال سے ڈیرہ بگٹی اور سوئی کے علاقوں میں پانی کی دستیابی یقینی بنائی گئی ہے۔ واپڈا نے ستمبر 2017 ء سے اپریل 2018ء تک جو بجلی سسٹم میں شامل کی ہے اس سے 86 ارب روپے کا ریونیو حاصل ہو گا۔ دیامر بھاشا ڈیم کا سنگ بنیاد پانچ بار رکھا جا چکا ہے۔ اس منصوبے کے لئے ہم نے وفاقی حکومت سے 232 ارب روپے کی فراہمی کی درخواست کی ہے۔ ڈیم کے لئے پہلے مرحلے میں474 ارب روپے کی ضرورت ہو گی
باقی رقم واپڈا خود فراہم کرے گا۔ دیامر بھاشا ڈیم کے لئے 90 فیصد زمین حاصل کی جاچکی ہے اور لوگوں کی دوبارہ آبادکاری کافارمولا بھی طے ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے بارے میں یہ کہنا کہ 84 ارب کا منصوبہ 500 ارب روپے تک پہنچ گیا درست نہیں ہے۔2005ء کے زلزلے کے بعد اس منصوبے کا ڈیزائن تبدیل کیا گیا اور 20 کلومیٹر لمبی سرنگ کی بجائے 60 کلومیٹر طویل سرنگ تعمیر کی گئی ہے۔ اسی طرح ڈیم کی بلندی بھی 13 میٹر بڑھائی گئی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ503 ارب روپے کے پی سی ون کایہ منصوبہ 464 ارب روپے میں مکمل ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ واپڈا میں ممبر واٹر اور ممبر پاور کی آسامیاں خالی ہیں۔ کسی بھی منصوبہ کی پی سی ون کی منظوری میں تقریباً 26 ماہ کا عرصہ لگ جاتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ تینوں یونٹس تربیلا فور کے توسیع منصوبے کے تینوں یونٹس کام کر رہے ہیں ۔ منصوبے کے حوالے سے پھیلائی جانے والی افواہوں میں حقیقت نہیں ہے۔