اتوار‬‮ ، 09 فروری‬‮ 2025 

شور تو بہت مچایا اب عمران خان نواز شریف پر 300ارب کی کرپشن ثابت بھی کریں، شہباز شریف کیخلاف نیب کو ثبوت کیوں نہیں دئیے جا رہے؟ معروف صحافی انصار عباسی کے سنسنی خیز انکشافات، حکومت کو آئینہ دکھا دیا

datetime 6  دسمبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)شہباز شریف اس وقت احتساب عدالت میں پیشی بھگت رہے ہیں اور نواز شریف نا اہلی کے بعد احتساب عدالت کے چکر پر چکر لگا رہے ہیں جبکہ آصف علی زرداری پر بھی گرفتاری کی تلوار لٹک رہی ہے ۔ اس تمام صورتحال پر معروف صحافی انصار عباسی اپنے کالم میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ اب آپ حکومت میں ہیں، جو چور ہے، جس نے ڈاکا ڈالا،

جس نے عوام کا مال کھایا اُسے پکڑیں۔ اب نعروں کا نہیں عمل کا وقت ہے۔ یہ وقت ہے نواز شریف کی تین سو ارب روپے کی کرپشن کو سامنے لانے کا جس کے بارے میں خان صاحب اور اُن کی پارٹی کے لوگ ڈھنڈورا پیٹتے رہے۔ یہ وقت ہے عدالتوں کے اُن فیصلوں کو غلط ثابت کرنے کا جن کے مطابق نواز شریف کے خلاف کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں۔ یہ وقت ہے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے خلاف کرپشن کے ثبوت نیب اور عدالتوں کو فراہم کرنے کا کیونکہ ابھی تک تو نیب کے مطابق اس کے پاس شہباز شریف کے خلاف پیسوں کی کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں۔ پیپلز پارٹی اور آصف علی زرداری کو طعنہ دینے کے بجائے جعلی اکائونٹس کیس میں تحقیقات کو جلد از جلد مکمل کیا جائے اور جو اس مبینہ کرپشن میں شامل ہے، اُس کے خلاف کیس بنا کر عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ خان صاحب سے اس بات کی بھی توقع ہے کہ وہ تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں میں شامل مبینہ کرپٹ افراد کے خلاف بھی اُسی جوش و خروش کے ساتھ کارروائی کریں گے جس انداز میں حکومت کے مخالفین کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے۔ اگر شہباز شریف کو بغیر ثبوت کے نیب پکڑ رہی ہے، جس پر خان صاحب نیب کو شاباشی بھی دیتے ہیں، تو اُسی نیب کو اس قابل بھی بنائیں کہ وہ اسی اصول کے مطابق حکومت میں شامل اُن افراد کو بھی پکڑے جن کو کافی سنگین الزامات کا

سامنا ہے۔ کوئی خان صاحب کو اس سے نہیں روکتا کہ کرپٹ عناصر کے خلاف ایکشن نہ لیں یا اُنہیں نہ پکڑیں۔ بس التجا یہ ہے کہ بلاوجہ سیاسی ماحول کو گرم مت رکھیں، سیاسی استحکام آنے دیں، وسط مدتی انتخابات کی بات مت کریں اس سے ملک کے حالات خراب اور لوگوں کے کاروبار تباہ ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے کسی بھی شہر کے، کسی بھی کاروباری طبقے سے پوچھیں، لوگ یہی کہیں گہ

کاروبار بہت خراب ہیں، بزنس چل نہیں رہا۔ میری رائے میں تو معیشت، گورننس، ادارہ سازی اور احتساب جیسے اہم ترین معاملات میں حکومت کو اپوزیشن کو ساتھ ملا کر پارلیمنٹ کے ذریعے ایک ایسے اتفاقِ رائے پر پہنچنے کی کوشش کرنا چاہیے کہ کم از کم ان چار معاملات پر کوئی سیاست نہ ہو۔ اسی صورت میں حکومت بھی اپنے منشور پر پورے فوکس کے ساتھ عمل درآمد کرنے کے قابل ہو گی۔ لیکن عمران خان کو کون سمجھائے؟؟؟

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



ابو پچاس روپے ہیں


’’تم نے ابھی صبح تو ہزار روپے لیے تھے‘ اب دوبارہ…

ہم انسان ہی نہیں ہیں

یہ ایک حیران کن کہانی ہے‘ فرحانہ اکرم اور ہارون…

رانگ ٹرن

رانگ ٹرن کی پہلی فلم 2003ء میں آئی اور اس نے پوری…

تیسرے درویش کا قصہ

تیسرا درویش سیدھا ہوا‘ کھنگار کر گلا صاف کیا…

دجال آ چکا ہے

نیولی چیمبرلین (Neville Chamberlain) سرونسٹن چرچل سے قبل…

ایک ہی راستہ بچا ہے

جنرل احسان الحق 2003ء میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘…

دوسرے درویش کا قصہ

دوسرا درویش سیدھا ہوا‘ کمرے میں موجود لوگوں…

اسی طرح

بھارت میں من موہن سنگھ کو حادثاتی وزیراعظم کہا…

ریکوڈک میں ایک دن

بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک…

خود کو کبھی سیلف میڈنہ کہیں

’’اس کی وجہ تکبر ہے‘ ہر کام یاب انسان اپنی کام…

20 جنوری کے بعد

کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…