اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) معروف صحافی رؤف کلاسرا نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فیض آباد والے پہلے دھرنے میں ہم بھی ان کے ساتھ تھے کہ ڈیل کر لیں گے چلو اچھا ہے لوگوں کا خون نہیں بہے گا، ریاست بھی افورڈ نہیں کر سکتی، ٹھیک ہے، ان کے مطالبے ہیں ، معروف صحافی نے کہا کہ ان کی جان بچ گئی باقیوں کی بھی بچ گئی،
پھر وہی چیزیں آپ کے سامنے آ گئی ہیں اور موجودہ حکومت کو سب سے زیادہ طعنے وہ لوگ دے رہے ہیں جنہوں نے اس سے زیادہ سخت معاہدہ تسلیم کیا تھا، معروف صحافی نے کہا کہ تین چار دن تک پی ٹی آئی حکومت کا آپ کو کوئی وزیر نہیں مل رہا تھا جیسے اس وقت نواز لیگ کے نہیں ملتے تھے وہ سارے مفرور ہوئے تھے، تین دن بعد آ کے ایسی بڑھکیں مارتے ہیں کہ ان کے پاس بہترین کنٹرول مینجمنٹ ہے اور بہترین فورسز ہیں اور جب یہ چاہیں گے یہ پورے پاکستان کو ایک منٹ میں ٹیک اوور کر لیں گے، تین دن غائب رہے ہیں، لوگ موٹر وے پر مرتے رہے ہیں، لوگوں کے گھروں آگ لگائی گئی ہے، ان کے موٹر سائیکل اور گاڑیوں کو آگ لگائی گئی ہے، کوئی پتہ نہیں خواتین اور مردوں کے ساتھ کیا ہوا ہے، دو سو لوگ دو سو روپے کا ٹائر لے کر پورا شہر بند جاتے تھے، معروف صحافی نے کہا کہ ایک کرنل صاحب کی گاڑی پھنس گئی تو آرمی والے آئے اور انہیں چھڑا کر لے گئے، وہاں پھر دس پندرہ لوگ تھے جنہوں نے دوبارہ راستے بند کر دیے، معروف صحافی نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ گجر صاحب گن نکال کر دو تین سو بندوں کو ڈرا سکتے ہیں تو آپ نے یہاں پر سفید ہاتھی کس کام کے لیے پالے ہیں، پھر کہا جاتا ہے کہ نہیں جناب وائلنس ہو جانا تھا، رؤف کلاسرا نے کہا کہ مجھے یہ بتائیں جن پر وائلنس ہو رہا ہے جس موٹر سائیکل پر ہو رہا ہے، جس گاڑی پر ہو رہا ہے جن لوگوں پر ہو رہا ہے ان کا کیا قصور ہے، آپ کا تو کام تھا کہ آپ کرائسز میں کھڑے ہوں،
کرائسز گزر گیا تو آپ لوگ باہر نکل آئے۔ ان لوگوں کی ایسی ایسی باتیں اور ان کی بڑھکیں سنیں، جب ہمیں ان کی ضرورت تھی یہ چار دن باہر ہی نہیں نکلے، عوام کو ان کی ضرورت تھی، عثمان بزدار بھی کہیں نظر نہیں آئے، ان کو چاہیے تھا کہ سڑک پر لیڈ کرتے کہ آپ کا اتنا بڑا صوبہ ہے جل رہا ہے، خدانخواستہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ آپ جا کر گولیاں برسانا شروع کر دیں لیکن آپ لوگوں کے سامنے آئیں ان کی حوصلہ افزائی تو کریں۔ ان لوگوں کو پتہ تھا کہ اس کا فیصلہ آنے والا ہے، ان لوگوں کے پاس پلان بی اور سی بھی ہونا چاہیے تھا۔