اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) اگر کسی سے گستاخی سرزد ہو جائے تو شرعی طریقہ کیا ہے؟ علامہ محمد الیاس قادری نے مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی سے گستاخی سرزد ہو جائے تو شرعی طریقہ یہ ہے کہ قاضی گستاخ کو توبہ کرنے کا کہتا ہے اگر شخص توبہ کر لے تو ٹھیک اور اگر وہ بضد رہے تو گستاخی کی حد کا اطلاق ہوتا ہے،
مولانا الیاس قادری نے کہا کہ اگر کسی اجتماع میں یا کہیں کوئی شخص چوری کرتے ہوئے پکڑا جائے تو لوگ اسے مارتے ہیں لیکن میں نے ان لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ آپ چور کو پکڑ لیں اور اسے پولیس کے حوالے کر دیں، اسے انگلی تک نہ لگائیں لیکن اس صورت میں پولیس کے حوالے کریں جب یہ یقین ہو کہ اس نے چوری کی ہے غلط فہمی کی وجہ سے اسے پولیس کے حوالے نہیں کرنا، قانون ہاتھ میں لینا ہمارا کام نہیں ہے، آپ کو قانون اجازت نہیں دیتا کہ آپ اسے ماریں، اسی طرح کوئی کیسا ہی جرم کرے مثلاً معاذ اللہ کوئی سرکار کی گستاخی ہی کر لے تو اس کو بھی خود قتل کر دینا شریعت میں اجازت تھوڑی ہے ہمیں، انہوں نے کہا کہ آپ بار شریعت پڑھیں، اس میں یہ ہے کہ قاضی اسلام اسے قید کرے گا، اسے توبہ کے لیے سمجھایا جائے گا، علماء توبہ کے لیے اسے سمجھائیں گے اگر یہ نہیں مانتا اور واقعی گستاخ رسولؐ ہے، اول تو ہو گستاخ رسول، اب ادھر تو بات بات پر گستاخ رسولؐ بول دیتے ہیں، جس کی جو سمجھ میں آتا ہے گستاخ رسولؐ ہے، میرے پاس تو آتے ہیں لوگ اور کہتے ہیں کہ ہمارا پورا گاؤں گستاخ رسولؐ ہے۔ ارے اللہ کے بندے سو سالہ بڑھیا بھی گستاخ رسولؐ اور دودھ پیتا بچہ بھی گستاخ رسولؐ۔ بھائی کیا بول رہے ہو کچھ ہوش تو کرو۔ تمہارے گاؤں میں کوئی چھوٹا بچہ بھی ہوگا کوئی بڈھا بھی ہو گا جو اللہ اللہ کرتا ہو گا نمازیں پڑھتا ہو گا تم نے اسے بھی گستاخ رسول بنا دیا۔ مولانا الیاس قادری نے کہا کہ یہ جاہل لوگوں کی بولیاں ہیں جو میں آپ کو بتا رہا ہوں، اگر کوئی ہو گستاخ رسولؐ تو اس پر بھی ہمیں اجازت نہیں کہ ہم اس پر کوئی مار دھاڑ کر دیں، ہمیں چاہیے کہ اسے قانون کے حوالے کر دیں۔