اسلام آباد(نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ نے آئی جی اسلام آباد تبادلہ کیس میں سینیٹر اعظم سواتی سے (آج) اپنی اوربچوں کی جائیداد کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے تفتیش مکمل ہونے تک امریکا جانے سے روک دیا اور ڈی جی ایف آئی اے کو بھی تحقیقات کرنے کا حکم دیدیا ،سپرنٹنڈنٹ جیل سے خاندان کی قید کا ریکارڈ طلب کرلیا،عدالت نے فواد چوہدری کے وضاحتی بیان کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنالیا،
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہاں تھے آپ بڑا شور مچارہے تھے کہ عدالت میں وضاحت دوں گا، غریب لوگوں کو اندر کرا دیا آپ نے،انکوائری کرائیں گے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ساری باتیں ٹی وی پر کرنی تھیں،کہاں آئے عدالت؟ وہ بھینس کدھر ہے ؟واپس کی یا ابھی بند کی ہوئی ہے؟ کیا وزیر کایہی کام ہوتا ہے؟ آرٹیکل 62 ون ایف صرف قانون میں رکھنے کے لیے نہیں، ہم اس آرٹیکل کو دیکھیں گے، جب تک تفتیش مکمل نہ ہوآپ امریکا نہیں جاسکتے،فواد چوہدری نے اس موقع پر کہا کہ یہ بھی تو مناسب نہیں کہ آئی جی منسٹر کا فون نہ سنے اور نہ کال بیک کرے جس پر چیف جسٹس نے کہا وزیر ہے تو کیا ہوا کیا قانون سے بالا ہے، ایک عام آدمی اور ایک طاقتور وزیر کا کیا مقابلہ ہے، اگر آپ اپنے بیان پر اصرار کر رہے ہیں تو پھر میرٹ پر دیکھ لیتے ہیں،وزیر اطلاعات نے کہا میں بالکل بھی اصرار نہیں کر رہا جس پر چیف جسٹس نے کہا ٹھیک ہے آپ کا معاملہ علیحدہ کر دیتے ہیں۔ بدھ کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ آئی جی اسلام آباد کے تبادلے پر از خود نوٹس کی ۔عدالت کی جانب سے طلب کیے جانے پر وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وفاقی وزیر اعظم سواتی پیش ہوئے، اٹارنی جنرل خالد جاوید، سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ اور سیکریٹری داخلہ بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے فواد چوہدری کو مخاطب کرتے
ہوئے کہاآپ نے عدالت کے بارے میں اس طرح کا طنزیہ بیان کیوں دیا جس پر ان کا کہنا تھا میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا تو آپ بتا دیں کیا بیان دیا تھا، آپا زبیدہ کی کہانی آپا زبیدہ کی زبانی سن لیتے ہیں، میں نے خود سنا ہے، ابھی عدالت میں آپ کا بیان چلا دیتے ہیں ۔وزیر اطلاعات نے کہا میں عدالت کا بے حد احترام کرتا ہوں، میری جرات ہی نہیں کہ عدالت کے بارے میں
کوئی بات کروں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا بیورو کریسی کو کردار ادا کرنا ہے تو الیکشن کی کیا ضرورت ہے یہ بیان کس کا ہے جس پر فواد چوہدری نے کہا میرا اشارہ عدلیہ کی طرف ہرگز نہیں تھا۔چیف جسٹس نے آئین کی کتاب لہرا کر فواد چوہدری کو کہا آپ آرٹیکل فورا پڑھیں، قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔عدالت نے فواد چوہدری کے وضاحتی بیان کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنالیا۔
فواد چوہدری نے اس موقع پر کہا کہ یہ بھی تو مناسب نہیں کہ آئی جی منسٹر کا فون نہ سنے اور نہ کال بیک کرے جس پر چیف جسٹس نے کہا وزیر ہے تو کیا ہوا کیا قانون سے بالا ہے، ایک عام آدمی اور ایک طاقتور وزیر کا کیا مقابلہ ہے، اگر آپ اپنے بیان پر اصرار کر رہے ہیں تو پھر میرٹ پر دیکھ لیتے ہیں۔وزیر اطلاعات نے کہا میں بالکل بھی اصرار نہیں کر رہا جس پر چیف جسٹس نے کہا ٹھیک ہے
آپ کا معاملہ علیحدہ کر دیتے ہیں۔چیف جسٹس نے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی سے مکالمے کے دوران کہا کیا آپ نے سارا کیس ٹی وی پر لڑنا ہے، آپ نے عورتوں سمیت خاندان کو اندر کرا دیا، کیا وہ آپ کی طاقت کے لوگ ہیں، ان کے گھر تین دن سے چولھے نہیں جلے۔اعظم سواتی نے کہا مجھے دھمکی آئی تھی کہ بم سے اڑا دیا جائے گا جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا
آپ کا رقبہ کتنا ہے اور آپ نے قبضہ بھی کیا ہوا ہے۔چیف جسٹس نے اعظم سواتی کو حکم دیا کہ کل اپنی اور بچوں کے تمام اثاثوں کی تفصیل عدالت کو فراہم کریں جب کہ عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کو بھی تحقیقات کرنے کا حکم دیا۔عدالت نے متاثرہ خاندان کی درخواست دینے کی صورت میں اعظم سواتی کے خلاف مقدمہ بھی درج کرنے کا حکم دیا۔چیف جسٹس نے کہا پچھلی بار اس لیے معاف کیا تھا
کہ نئی حکومت آئی ہے اور سسٹم کو چلنا چاہیے، اب دیکھیں گے آرٹیکل 62 ون ایف کا کہاں اطلاق ہوتا ہے، اس کیس میں ہم آئندہ کے لیے لائن طیکریں گے کہ ملک کو کیسے چلنا ہے۔چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں موجود سینئر اینکر پرسن کو روسٹرم پر بلایا اور کہا کہ آپ انسانی حقوق کے علمبردار ہیں، اس واقعے کی تفصیل بتائیں۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ مذکورہ خاندان پہلے دن سے
مقدمہ اندراج کی درخواست دے رہا ہے لیکن پولیس نے ایف آئی آردرج نہیں کی۔متاثرہ خاندان کو جیل بھجوانے کے بعد چھوٹے بچے بھوکے رہے جن کے پاس صرف 600 روپے تھے، پولیس کے خوف سے پڑوسیوں نے آٹا بھیجنے پر بھی بچوں کو روٹی نہیں پکا کر دی۔ اینکر پرسن کے مطابق کل فاٹا ارکان پارلیمنٹ سے کچھ کو بلا کر خاندان سے زبردستی صلح کی کوشش کی گئی۔چیف جسٹس نے
استفسار کیا کیا یہ ہیں وہ لوگ جنہیں لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرنی ہے؟، چیف جسٹس نے اعظم سواتی سے استفسار کیا آپ سمجھتے ہیں آپ سے باز پرس نہیں ہوسکتی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہا گیا سپریم کورٹ آئی جی کو نہیں ہٹا سکتی، چیف جسٹس نے آئین کی کتاب کو لہرا کر کہا یہ سپریم کورٹ ہی تھی جس نے اس آئین کے تحت وزیراعظم کو گھر بھیجا تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ
کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہے لیکن وزیراطلاعات نے غیر ذمہ دارانہ بیان دیا، کیا اس طرح بیان دیا جاتا ہے ایسا ہم سوچ بھی نہیں سکتے، غیر ذمہ داری کی بھی حد ہوتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا وزیر اطلاعات جو قانون دان بھی ہے وہ یہ بیان دیتا ہے کہ ایگزیکٹو نے حکومت چلانی ہے تو الیکشن کس بات کے، انہوں نے یہ بیان دے کر کس ادارے پر طنز کیا۔چیف جسٹس نے
کہا کہ وزیراعظم وزیرداخلہ کا قلم دان بھی رکھتے ہیں سیکرٹری داخلہ کو علم ہی نہیں تھا، آپ کا منسٹر کہتا ہے جو مرضی آئے گا کریں گے، ہم دیکھتے ہیں وہ کیسے کریں گے۔چیف جسٹس نے کہا اعظم سواتی کے گھر گائے گھس گئی کون سی قیامت آگئی، بچوں کو پکڑ کے اندر کرا دیا اور ٹی وی پر کہہ رہا ہے اپنی پوزیشن واضح کروں گا۔چیف جسٹس نے کہا وزیراطلاعات کس طرح کی باتیں کررہے ہیں،
وہ تو قانون دان بھی ہیں جس پر کمرہ عدالت میں موجود فواد چوہدری کے بھائی چوہدری فیصل نے کہا کہ فواد چوہدری نے عدالت کی تضحیک نہیں کی، چیف جسٹس نے کہا چینلز سے وزیر اطلاعات کی ٹیپ منگوائیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ فواد چوہدری ریاست کے ترجمان ہیں، کیا ریاست کا ترجمان ایسا ہوتا ہے۔اٹارنی جنرل خالد جاوید نے آئی جی اسلام آباد جان محمد کے تبادلے کی رپورٹ عدالت
میں پیش کردی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیر مملکت شہریار آفریدی نے وزیراعظم کو آئی جی اسلام آباد کو ہٹانے کا کہا تھا اور چند روز قبل وزیرخزانہ اسد عمر نے بھی آئی جی کی تبدیلی کے لیے کہا تھا۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزرا آئی جی اسلام آباد کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے، آئی جی کے ہوتے ہوئے اسلام آباد میں جرائم اور منشیات میں اضافہ ہوا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ
جان محمد کے تبادلے کی سمری تیار کرنے کا حکم وزیر اعظم نے دیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا کیا آتش فشاں پھٹ گیا تھا کہ آئی جی کے خلاف فوری اقدام کیا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئی جی اسلام آباد کے لیے وزیراعظم نے پرنسپل سیکرٹری سے پہلے ہی نام طلب کر رکھے تھے، ناصر درانی سے کہا گیا تھا کہ حکومتی وژن کے مطابق اسلام آباد کے لیے امیدوار کا نام دیں
اور 19 ستمبر کے بعد آئی جی اسلام آباد کے لیے انٹرویوز شروع ہوچکے تھے۔عدالت کو اٹارنی جنرل کی جانب سے بتایا گیا کہ آئی جی اسلام آباد کے لیے 2 آفیسرز کے انٹرویوز بھی کر لیے گئے تھے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کہتے ہیں کہ آئی جی کو نگران حکومت نے لگایا تھا، آپ نے تبادلہ کرنا تھا اور پنجاب میں تو آپ نے خود لگائے گئے آئی جی کا تبادلہ کردیا اور ناصر درانی استعفیٰ
دے کر چلے گئے۔چیف جسٹس نے کہا آپ کی کیا کارکردگی ہے، نظر آرہی ہے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا یہ بات درست کہ اعظم سواتی کی شکایت ملنے پر وزیراعظم نے زبانی احکامات دیے، سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے فورا سمری بنا کر بھجوائی اور وزیراعظم نے آئی جی اسلام آباد کو ہٹانے کی منظوری دی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا ‘آئی جی کو تو 27 اکتوبر کو ہٹا دیا گیا تھا،
زبانی احکامات کی تصدیق 29 اکتوبر کو ہوئی، آئی جی کو تو سمری کی منظوری سے پہلے ہٹا دیا گیا تھا۔اٹارنی جنرل نے کہا ‘رول فائیو الیون اے میں وزیراعظم زبانی حکم دے سکتے ہیں’ جس پر چیف جسٹس نے کہا رول کے مطابق یہ اختیار ہنگامی صورتحال میں ہوتا ہے، یہ تو آپ کی طوطا کہانی تھی ہوگئی۔جسٹس سجاد علی شاہ نے استفسار کیا آئی جی اسلام آباد کے خلاف الزامات کیا تھے،
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا جب انٹرویوز ہوگئے تھے کسی امیدوار کو سلیکٹ کرلیا تھا تو ایمرجینسی کی کیا ضرورت تھی، تبادلہ روٹین میں کردیتے، کیا زبانی حکم دے دینا، گھر بھیج دو ہتھکڑی لگا دو قانون کی حکمرانی ہے۔یاد رہے کہ چیف جسٹس پاکستان نے آئی جی اسلام آباد جان محمد کو اچانک عہدے سے ہٹانے پر از خود نوٹس لیا تھا۔