اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف کالم نگار بلال غوری اپنے کالم میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ اسد عمر کو نئے پاکستان کا ’’برین‘‘ کہا جاتا ہے اور وہ پرانے پاکستان میں بتایا کرتے تھے ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ملکی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور جب حکومت قرضے کی نئی قسط وصول کرتی تو عوام کو آگاہ کیا جاتا کہ اس سے ہر نوزائیدہ بچے کے ذمہ قرض میں مزید
کتنا اضافہ ہو گیا ہے۔ اگر مناسب سمجھیں تو اب بھی قوم کی رہنمائی فرما دیں کہ اسٹاک ایکسچینج کریش کرنے سے کتنے ارب روپے ڈوب گئے؟ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت ایک ہی دن میں 124روپے سے بڑھ کر 137روپے ہو جانے سے غیر ملکی قرضوں کے حجم میں کتنا اضافہ ہوا؟ پرانے پاکستان میں ہر پاکستانی کس قدر مقروض تھا، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول کے بعد اس قرض میں کتنا اضافہ ہو جائے گا۔ میں معاشی گورکھ دھندوں اور اعداد و شمار کی جادوگری سے ناواقف ہوں مگر پھر بھی چند نکات کی وضاحت تو کر ہی سکتا ہوں۔ ڈالر کی قیمت میں ایک ہی دن ہونے والے اضافے سے مہنگائی کا جو سیلاب آرہا ہے وہ تو اپنی جگہ مگر غیر ملکی قرضوں کے حجم میں ایک ہی دن میں 900ارب روپے کا اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ کتنی بڑی رقم ہے اس کا اندازہ یوں لگائیں کہ زبردستی وصول کئے گئے دیامر بھاشا ڈیم فنڈ میں تمام تر کوشش کے باوجود اب تک بمشکل 4ارب روپے جمع ہو سکے ہیں۔ اس طرح کے منصوبوں کی لاگت کا تخمینہ ڈالر میں لگایا جاتا ہے اور سابقہ تخمینہ جو 1450ارب روپے تھا، ڈالر کی قیمت بڑھنے سے اس میں کئی ہزار ارب روپے کا اضافہ ہو گیا۔ یعنی نہ صرف اب تک جمع کیا گیا چندہ برف کی طرح پگھل گیا بلکہ مزید کئی سال جھولی پھیلائے رکھیں تو تب کہیں جا کر محض یہ نقصان پورا ہو گا۔