اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی ارشد وحید چوہدری اپنے کالم میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ گزشتہ روز آئینی مدت پوری کرکے سبکدوش ہونے والے ممنون حسین کے پانچ سالہ دور میں ایوان صدر غیر اہم اور صدر مملکت کا عہدہ بظاہر نمائشی رہا۔ اپنے پیش رو کی طرح ممنون حسین کے بہت زیادہ متحرک نہ ہونے کے باعث ان کے بارے میں طرح طرح کے لطیفے گردش کرتے رہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ممنون حسین اس عہدے پر اس وقت کے پارٹی صدر نواز شریف کی خصوصی شفقت کے باعث پہنچے تھے اور یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس یا کسی دیگر میٹنگ میں وہ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے ہمراہ نظر آئے تو ہمیشہ ان سے دو قدم پیچھے چلنے کی کوشش کرتے رہے۔ بطور صدر مملکت پارٹی کی طرف سے انہیں اہمیت دینے کا یہ عالم تھا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے موجودہ آرمی چیف کی تقرری کے وقت جب وہ فائل لے کر خود ایوان صدر گئے تو تقررنامے سے متعلق سطروں پر کاغذ رکھ کر صدر مملکت سے دستخط کرائے گئے تاکہ وفاقی حکومت کی طرف سے اس اہم تقرری کا باضابطہ اعلان کرنے تک اسے خفیہ رکھا جا سکے۔ یہ تو مسلم لیگ ن اور صدر مملکت کے درمیان معاملہ تھا جہاں طاقت کا مرکز بلا شبہ مسلم لیگ ن کی قیادت تھی تاہم بطور صدر مملکت ممنون حسین کے قومی منظرنامے میں کوئی اہم کردار ادا نہ کرنے پر طنز کرنے اور نئے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرنیوالے شاید آئین پاکستان سے ناواقف تھے اور ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ موجودہ آئین پاکستان میں صدر مملکت کا عہدہ اگرچہ سب سے بڑا ہے لیکن اسکے اختیارات نہایت محدود ہیں۔سابق وزیر اعطم نواز شریف کے دوسرے وزارت عظمی کے دور 1997 ءمیں انہوں نے
دو تہائی اکثریت کی مدد سے صدر کے سب سے اہم اختیار یعنی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے آرٹیکل 58 ٹو بی کو آئین سے نکال دیا تھا لیکن پرویز مشرف کی آمریت میں نہ صرف اسے دوبارہ آئین کا حصہ بنا دیا گیا بلکہ آئین میں وسیع پیمانے پرترامیم کے ذریعے انہوں نے تمام اختیارات صدر کی ذات میں مرتکز کر دئیے۔ سابق صدر آصف زرداری کی ہدایت پر آئینی اصلاحات کمیٹی کی متفقہ سفارشات پر 18 اپریل 2010 ء
میں پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کی گئی متفقہ 18 ویں ترمیم کے ذریعے آمروں کی طرف سے آئین میں شامل کی گئی تمام غیر آئینی ترامیم کو نکال دیا گیا۔ یوں ایک بار پھر نہ صرف صدرمملکت کا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار ختم کر کے اسے وزیر اعظم کی ایڈوائس سے مشروط کر دیا گیا بلکہ مسلح افواج کے سربراہان کی تعیناتی سمیت دیگر اہم اختیارات بھی واپس وزیر اعظم کے حوالے کردئیے گئے اگرچہ صدر بدستورمسلح افواج کا سپریم کمانڈر ہے۔