اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی مظہر برلاس اپنے آج کے کالم میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ شاہراہ دستور پر پانچ چھ سو افراد کا ہجوم دیکھنے کے بعد پیپلزپارٹی کے سینئر اور سوبر رہنما نوید چوہدری نے فون کیا، کہنے لگے ’’آپ نے اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کے بارے میں جگتو فرنٹ تو لکھ دیا تھا آپ کو ایم آر ڈی کا اتحاد یاد نہیں رہا؟ آپ دیکھ رہے ہیں احتجاج….‘‘
نوید چوہدری کی خدمت میں عرض ہے کہ گیارہ بارہ جماعتوں نے جس احتجاج میں حصہ لیا، اس میں گیارہ بارہ سو افراد بھی شریک نہیں ہوئے۔ چار سو افراد تو میڈیا کے تھے، پچاس افراد اسپیشل برانچ اور دیگر اداروں کے سول کپڑوں میں تھے۔ باقی حساب آپ خود لگالیں اور پھر سوچیں کے لوٹ مار کرنے والی سیاسی جماعتوں کو لوگوں نے کس طرح مسترد کیا۔ اس احتجاج میں ہر سیاسی جماعت کے فوٹو مافیا کے چند افراد شریک ہوئے۔ جس سمندر کی توقع تھی وہ تو نہ آیا، عوام کا سمندر تو کیا د ریا بھی نہ آسکا بلکہ ایک برساتی نالہ ثابت ہوا ۔ جونہی ساون کی بارش ختم ہوئی، نالے سے پانی اتر گیا۔اب جگتو فرنٹ اور ایم آر ڈی کی بات کرلیتے ہیں۔ جگتو فرنٹ میں بھی پاکستان کے مخالف شامل تھے۔ اس نام نہاد اتحاد میں بھی پاکستان کے مخالفین ہیں۔ اگریقین نہ آئے تو پھر احتجاج کرنے والوںکے نعرے سن لیں۔ وہ نہ ملیں تو مولانا فضل الرحمٰن کی تقریر سن لیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے ایسے ہر جلوس سے نفرت ہے جس میں میرے ملک کے خلاف نعرے بازی ہو ۔ مجھے بعض رہنما اسی لئے اچھے نہیں لگتے کہ ان کے نظریات پاکستان کے حوالے سے درست نہیں ہیں ۔ کون نہیں جانتا کہ کس کس جماعت نے پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ اسلام آباد میں ہونے والے احتجاج نے بہت سے چہروں کو بے نقاب کردیا ہے۔ گویا بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے۔ وہ جو 1947میں قیام پاکستان کے خلاف تھے،
آج وہ استحکام پاکستان کے خلاف ہیں۔ ویسے معذرت کے ساتھ آپ کسی بھی مولوی کومسجد سے نکال دیں تو وہ شور شرابہ ضرور کرے گا۔ کچھ ایسی ہی صورتحال سیاسی حالات میں ہے۔ ایم آر ڈی کی قیادت نوابزادہ نصراللہ خان جیسا معتبر اور وضعدار سیاستدان کر رہا تھا۔ایم آر ڈی کی تحریک خالصتاً جمہوری جذبے کے تحت چلائی گئی تھی۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے پیچھے جذبہ تھا، کسی کا
پیسہ نہیں تھا۔ ایم آرڈی جمہوریت کی بحالی کے لئے ایک کامیاب تحریک تھی۔ اس میں کرسی سے زیادہ نظریات کادخل تھا مگراب تو اقتدار پرستوں کا ایک ہجوم ہے۔ یہ ہجوم ملک کے خلاف نعرے بازی بھی کرتاہے، نفرت بھی پھیلاتا ہے۔ اس کی قیادت نوابزادہ نصراللہ خان کے پاس نہیں بلکہ ایک مولانا کے پاس ہے۔ مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں بس اتنا ہی کافی ہے کہ سربراہی مولانا صاحب کے پاس ہے۔
اس احتجاج میں سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ اس میں آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری، میاں شہبازشریف اور اسفند یار ولی شریک ہی نہیں ہوئے۔ کیا احتجاج تھا کہ راجہ پرویز اشرف اور جاوید اخلاص ایک ساتھ احتجاج کر رہے تھے۔ راجہ پرویز اشرف نے حالیہ الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہے جبکہ جاوید اخلاص کا شکست میں تیسرا نمبر تھا۔ جیتنے اورہارنے والے پتہ نہیں کس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں؟
سوشل میڈیا نے راجہ پرویز اشرف اور جاوید اخلاص کی تصویر کو خوب گھمایا ہے۔میرے ایک دوست نے ابھی ایک لسٹ بھی دی ہے جس میں محمود اچکزئی کے درجن سے زائد رشتہ داروںکے نام ہیں۔ یہ تمام افراد پچھلے پانچ سال اقتدارکے مزے لوٹتےرہے۔ اب یہ تمام ایک دم بیروزگار ہوگئے ہیں۔ جس کے پندرہ رشتہ دار اکٹھے بیروزگارہوجائیں وہ رولا تو ڈالے گا، شور تو کرے گا۔