اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک ) بھارتی روئیے سے مایوس روس پاکستان کے قریب آنے لگا، روس نے پاکستان کو ایس یو 35 لڑاکا طیاروں کی پیش کش کردی۔ تفصیلات کے مطابق قومی اخبار کی رپورٹ کے مطابق بھارتی روئیے سے مایوس روس پاکستان کے قریب آنے لگا ہے اور اس نے پاکستان کو ایس یو 35لڑاکا طیاروں کی پیش کش کر دی ہے۔ واضح رہے کہ جولائی کے
آخر میں بھارتی وزیردفاع نرملہ سیتارمن نے کہا کہ بھارت اب رشئین انڈیا ففتھ جنریشن فائٹر ائیرکرافٹ پروگرام (ایف جی ایف اے) کی پارٹی نہیں اس پروگرام کے تحت پانچویں جنریشن کے طیارے بنائے جارہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے روس کو بتادیا کہ بھارت اس منصوبے میں حصہ لینے والا نہیں ، لیکن یہ بھی واضح کردیا کہ روس خود اس پروگرام کو جاری رکھ سکتا ہے،بھارت بعد میں کسی مرحلے میں اس کے ساتھ مل سکتا ہے۔ بھارتی فضائیہ کی اس موضوع پر خصوصی رپورٹ میں کہاگیا کہ یہ پروگرام ہماری ضرور یا ت کو پورا نہیں کرتا کیونکہ اس کے تحت ایک بھی ایسا طیارہ تیار نہیں ہوسکتا جس کی کارکردگی امریکی لڑاکا طیارے ایف ایف 22 اور ایف 35 کے قریب ہو۔ روس اور بھارت نے 2007 میں اس پروگرام کے معاہدے پر دستخط کیے۔ گزشتہ چند سالوں میں، بھارت نے کئی بار اس پروگرام کی زیادہ لاگت اور عملدرآمد پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔بھارتی مارکیٹ پر امریکی،فرانسیسی،اور اسرائیلی کمپنیاں چھائی ہیں۔ روس کا 25فی صد حصہ ہے۔ بھارت اسلحہ خریداری میں آزادانہ کام کرنا چاہتا ہے تو پھر روس نے کیوں محدود کررکھا ہے۔ تاہم اس میں سیاسی اور ملٹری خطرات ہیں، روس کے ستر ممالک کے ساتھ فوجی اور ٹیکنیکل تعاون ہے۔ روس کے سینٹر فار انلاسس آف اسٹریٹجی اینڈ ٹیکنالوجیز کے ڈپٹی ڈائریکٹر کانسٹینٹن میکنکو کا کہنا ہے کہ
روس نے اب پاکستان کو ایس یو 35 لڑاکا طیاروں کی پیشکش کی ہے۔ انہوں نے کہ روس بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہتا، تاہم فیفتھ جنریشن پروگرام کے متعلق بھارتی رویے کی وجہ روس کو پاکستان میں ایس یو لڑاکا طیاروں کو فروغ دینا چاہیے۔ دوسری صورت میں، چین، جنوبی کوریا یا ترکی کی کمپنیاں تقریباً پانچ برس میں اس مارکیٹ پر چھا جائیں گی ۔پاکستان کا ملٹری طیاروں کا فلیٹ امریکی
اور چینی طیاروں پر مشتمل ہے۔ اگر پاکستان روس سے ایس یو 35خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے تو بھارت اس پیشرفت سے خوش نہیںہوگا۔ روس پاکستان کے ساتھ ایم آئی 8اورایم آئی17ہیلی کاپٹرز میں تعاون کررہا ہے جس سے بھارتکو کوئی مسئلہ نہیں۔ روس کو بھارت کے مفادات پر کم توجہ دینا چاہئے.،کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ایسی پالیسی بھارت کے لئے ایک سزا کی حیثیت رکھتی ہے،
اگرچہ دونوں ممالک کئی دہائیوں کے لئے مثبت تعلقات رکھتے ہیں،تاہم سب کچھ تبدیل ہو گیا۔یہ کوئی راز نہیں کہ بھارت پہلے بھی اور اب بھی روسی ہتھیار وں کااہم خریداروں میں سے ایک ہے۔ا سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق 2000ء سے 2014ء میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والا بھارت تھا ،جس میں روسی اسلحے کا75فیصد حصہ تھا۔ 2015ء میں
بھارت کوروسی ہتھیاروں اور فوجی سامان کی ترسیل کا تخمینہ 4؍ ارب ڈالر تھا۔ 2016 میں دو ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ 2017ء میں روسی ہتھیاروں کی مجموعی خریداری چار ارب ڈالر سے زیادہ تھی۔تاہم بعد میں بھارت نے نہ صرف روس سے ہتھیار خریدنے کی کوشش کی بلکہ اسرائیل ، یورپی یونین اور امریکاسے بھی خریدنے کی کوشش کی۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ واشنگٹن ماسکو اور دہلی کے درمیان دفاعی تعاون ختم کرنا چاہے گا۔