اسلام آباد (این این آئی)وزیر دفاع اوروزیر خارجہ خرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے پاکستانی سفارتکاروں ٗ دیگر پابندیوں اور ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کی امداد کی معطلی کے باوجود پاکستان نے افغانستان میں امریکہ کی سپلائی لائن کاٹی نہیں ہے اور ا ب بھی امریکہ کیلئے پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود کھلی ہیں ٗپاکستان اور امریکا کے درمیان اس وقت ورکنگ
سطح پر بات چیت نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے یہ تناؤ پیدا ہوا ہے ٗ امریکی اقدامات بڑھیں گے تو ہماری تشویش میں اضافہ ہوگا ٗ پاکستان اور امریکہ کے درمیان اعلیٰ سطحی مذاکرات نہیںہونگے تو افغانستان کے معاملات پر مشکلات آنے کا امکان ہوگا ٗمذاکرات کے ذریعے معاملات حل کر نا ہی ہماری پالیسی ہے ۔ایک انٹرویو میں انہوںنے کہاکہ ہم نے اپریل میں کوشش کی تھی کہ امریکی سفارتخانے سے ہمیں جو شکایات موصول ہوئی تھیں اس کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے اور ہم نے ایک ایسا میکنزم بھی تجویز کیا تھا تاکہ آئندہ شکایات کا ازالہ کیا جاسکے ۔انہوںنے کہاکہ 27اپریل کے بعد ہمیں کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی تھی لیکن امریکہ کی جانب سے جو اقدامات اٹھائے گئے تھے پاکستان نے صرف اس کے جواب میں متبادل اقدامات اٹھائے ہیں ۔انہوںنے کہاکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے گزشتہ ڈیڑھ سال میں پاکستان سے متعلق صرف دبائو کی حکمت عملی اپنائی ہے اور ہمارے سفارتکاروں پر پابندیاں اسی حکمت عملی کا حصہ ہیں لیکن ہماری پالیسی ہے کہ ہم ان سے مذاکرات سے معاملات کو حل کریں ۔انہوںنے کہاکہ سابق امریکی وزیر خارجہ ٹیلر سن اور وزیر دفاع جان میٹس کے دورہ پاکستان اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی دورہ واشنگٹن کے دور ان امریکی نائب صدر کے ساتھ ملاقاتوں میں مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی تھی تاہم اس وقت پاکستان اور امریکہ
کے درمیان صرف سفارتخانوں کے ذریعے رابطے ہیں اور اعلیٰ سطح کے باضابطہ رابطوں اور مستقل مذاکرات کا سلسلہ تقریباً اس وقت رک گیا ہے ۔انہوںنے کہاکہ اس وقت ہمارے دفاع ٗ خارجہ اور تجارتی معاملات پر کوئی مذاکرات نہیں ہورہے ہیں ٗدونوں ممالک کے درمیان خلیج کم نہیں بلکہ بڑھ رہا ہے اور آج کا تنائو بھی گفتگو نہ کر نے کا نتیجہ ہے اور ایسی صورتحال میںجب مذاکرات
اور گفتگو نہیں ہوگی تو حالیہ دنوں میں ہونے والے فیصلے اسی کا نتیجہ ہیں ۔انہوںنے کہاکہ پاکستان پر امریکہ نے بہت سی پابندیاں لگائی ہیں لیکن ہماری حکومت نے اس طرح کی جوابی پابندیاں امریکہ پر نہیں لگائیں اور اس وقت بھی افغانستان میں ترسیل کیلئے پاکستان کے زمینی اور ہوائی راستے امریکی فوج کیلئے کھلے ہیں ۔انہوںنے کہاکہ اگر امریکہ کے ایسے اقدامات بڑھیں گے تو یہاں بھی تشویش میں اضافہ ہوگا ۔
انہوں نے کہاکہ ٹرمپ انتظامیہ اس وقت پاکستان کے ساتھ صرف سفارتخانوں کے ذریعے رابطے میں ہے اور اعلیٰ سطح پر مذاکرات اور رابطوں کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے ۔اس سوال پر کہ کیا پاکستان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ بحال ہوسکتا ہے تو انہوںنے کہاکہ ہمیں اس وقت بڑی امید پیدا ہوگئی تھی جب افغان صدر اشرف غنی نے فروری میں ایک امن منصوبہ پیش کیا تھا اور
ہمیں امید تھی کہ اس میں پاکستان ایک فعال کر دار ادا کریگا لیکن اس وقت صرف امریکی نائب وزیر خارجہ ایل ایس ویلز پاکستان آتی ہیں اور اس کے علاوہ کوئی اعلیٰ سطح پر رابطے نہیں ہورہے ہیںتو اس سے بھی نا امیدی پیدا ہوگئی ہے ۔انہوںنے کہاکہ اگر پاکستان اور امریکہ کے درمیان اعلیٰ سطحی مذاکرات نہیںہونگے تو افغانستان کے معاملات پر مشکلات آنے کا امکان ہوگا ۔وزیر خارجہ نے
کہا کہ افغانستان میںامریکہ کو مشکلات اور ہزیمت اٹھانے کی وجہ سے دبائو پاکستان پر بڑھایا جارہا ہے تقریباً ڈیڑھ لاکھ غیر ملکی فوجیوں کی موجودگی کے باوجود امریکہ افغانستان میں کامیابی حاصل نہیں کر سکا تو وہ ان کی اپنی پالیسیوں کا نتیجہ ہے ۔وزیر خارجہ نے کہاکہ ہماری کوشش ہوگی کہ اس حکومت کے باقی تین ہفتوں میں امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بہتری کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں ۔
یاد رہے کہ پاکستان نے گیارہ مئی کو امریکہ کی جانب سے پاکستانی سفارتکاروں پر پابندیوں کے جواب میں اسی طرح کے اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا تھا اور اس سلسلے میں ایک خطے کے ذریعے امریکی سفارتخانے کو باضابطہ طورپر آگاہ کر دیا گیا تھا ۔