اسلام آباد (نیوز ڈیسک) معروف کالم نگار تنویر ظہور اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جوڈیشل یا کسی اور مارشل لاء کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں۔ اب وہ وقت نہیں کہ ہم یہ غلاظت اور گندگی اپنے ماتھے پر لگائیں۔ یہ بہت اچھا بیان ہے۔ ہر ادارے کو آئین کے تحت اپنے اپنے فرائض سرانجام دینے چاہئیں۔
قبل ازیں بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا۔ 1958ء میں ملک میں جب پہلا مارشل لاء لگا تو سپریم کورٹ نے قانونی طور پر اسے ایک طرح کی سند دے دی۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ اگر انقلاب کامیاب ہو اور لوگ اسے قبول بھی کر لیں تو وہ بجائے خود ایک نیا قانونی نظام نافذ کرنیکا اہل ہوتا ہے۔ یعنی ایوب خان کی آمریت کو قانونی طور پر تحفظ دیا گیا۔ معروف ادیب قدرت اللہ شہاب بیوروکریٹ تھے۔ جنرل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان کے ادوار میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔ مگر وہ اس بات کے حق میں نہیں تھے کہ ملک میں مارشل لاء لگے۔ قدرت اللہ شہاب کا انتقال جولائی 1986ء میں ہوا۔ انتقال سے چند روز قبل ایک اخبار میں ان کا انٹرویو شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے اپنی زندگی کے چند پچھتاووں کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے کچھ چیزوں کو صحیح سمجھا لیکن وہ غلط ثابت ہوئیں۔ مثلاََ ایوب خان نے مارشل لاء لگایا۔ میں سمجھا کہ یہ جس وجہ سے لگا ہے، اس کا صحیح حل ہے لیکن اب میں جب پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے وہ سب غلط لگتا ہے اور پچھتاوا ہے کہ میں نے اسے اس دور میں غلط کیوں نہ سمجھا اور اسے صحیح قرار دے کر اسے کامیاب بنانے کے لیے اتنی محنت کیوں کی؟ اس پچھتاوے کے علاوہ میں اپنی زندگی سے مطمئن ہوں۔ اس کی وجہ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ دین کے معاملے میں کسی قسم کے شک و شبہ میں مبتلا نہیں ہوا۔
اس دور تشکیک میں یہ بڑی خوش نصیبی اور اللہ تعالیٰ کا کرم ہے۔ اپنی سول سروس کی ملازمت کے مقابلے کے امتحان میں اللہ تعالیٰ نے مجھے کامیابی عطا فرمائی۔ سروس کے دوران میں نے کبھی سفارش، کوشش اور خوشامد سے اپنی کوئی پوسٹنگ یا ٹرانسفر نہیں کرائی۔ اس کے باوجود مجھے اچھی سے اچھی پوسٹنگ ہی ملتی رہی۔ میں اسے بھی خوش قسمتی سمجھتا ہوں۔ ملازمت کے دوران میں نے دانستہ طور پر کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔
اپنی جائز تنخواہ کے علاوہ میں نے کبھی حکومت سے مالی امداد، زرعی اراضی یا رہائشی پلاٹ حاصل کرنے کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ ایک بار ایک سربراہ مملکت نے مجھے آٹھ مربع زمین انعام دینے کی پیش کش کی تھی۔ جب میں نے انعام قبول نہ کیا تو انہوں نے کسی قدر ناراضی کے ساتھ اس کی وجہ پوچھی۔میں نے انہیں یہ یقین دلایا کہ انجام کار انسان کو فقط دو اڑھائی گز زمین کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ہر صورت میں کہیں نہ کہیں مل ہی جاتی ہے۔
ملازمت کے دوران میں نے اپنا کام ایمانداری اور بے خوفی سے کیا ہے۔ اس کی پاداش میں کئی بار استعفا دینے تک نوبت آئی۔ یحییٰ خان کو استعفیٰ پیش کرنے کے بعد جو تین سال میں نے باہر گزارے وہ کسی حد تک میری تنگ دستی کا زمانہ تھا لیکن کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے کی نوبت نہیں آئی۔ میں اسے اپنی بہت بڑی خوش قسمتی خیال کرتا ہوں۔ میں خود کسی کا دشمن نہیں ہوں اور نہ کسی دوسرے کو اپنا دشمن سمجھتا ہوں۔
میں کبھی فرسٹریٹ نہیں ہوا۔ میں اکیلا رہ کر خوش رہتا ہوں۔ مجھے تنہائی کے احساس نے کبھی نہیں ستایا۔ میں بہت خوش ہوں کہ مجھے بہت اچھے دوست ملے۔ قدرت اللہ شہاب سے میری چند ملاقاتیں رہی ہیں۔ ایک دو ملاقاتیں اشفاق احمد صاحب کی رہائش گاہ پر ہوئیں۔ اشفاق صاحب نے قدرت اللہ شہاب سے پوچھا کہ کیا آپ صوفی ہیں؟ شہاب صاحب کا جواب تھا۔ میں صوفی تو نہیں ہوں مگر میں نے اس علم کے بارے میں بہت پڑھا ہے۔ دینی، روحانی علوم کی کتابیں اور ملفوظات کا مطالعہ کیا ہے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ تصوف کی اصل شاہراہ دراصل شریعت ہے اور تصوف جسے طریقت کہتے ہیں۔