اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان کی خارجہ پالیسی قومی مفاد کے تحت بنتی ہے مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہورہا، ہم ابھی تک اپنے مفادات کو صحیح انداز میں پیش نہیں کر سکے، چین کے ساتھ دنیا کے جڑنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک معاشی طاقت کے طور پر ابھرا ہے، سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کی نجی ٹی وی پروگرام میں معروف سلیم صافی سے گفتگو۔
تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی پروگرام میں پاکستان کی سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے معروف صحافی سلیم صافی سےگفتگو کرتے ہوئےکہا ہے کہ ج دنیا میں اگر کسی ملک کے پیچھے جایا جاتا ہے تو اس کی بنیاد جوہر ی طاقت ہونا یافوجی کارروائیاں نہیں بلکہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ ملک کسی دوسرے ملک کیلئے کتنا مددگار یا اسٹریٹیجک اثاثہ ہے یا نہیں، کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی قومی مفاد کے تحت بنتی ہے مگر ہم ابھی تک اپنے مفادات کو صحیح انداز میں پیش نہیںکر سکے۔ چین کے ساتھ دنیا کے جڑنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک معاشی طاقت کے طور پر ابھرا ہے۔ حنا ربانی کھر نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کے ماننے والوں کا کام تو یہ ہوتا ہے کہ وہ اسلام کو آگے پھیلائے،قائد اعظم نے جب ملک بنایا تھا تو یہ نہیں کہا تھا کہ یہ ملک صرف سنیوں کا ملک ہوگا بلکہ یہ کہا تھا کہ یہ برصغیر کے اقلیتی مسلمانوں کاملک ہوگا ،پاکستان میں اس وقت مزید تفریق کردی گئی سنی ، شیعہ ، دیوبندی اور بریلوی کی تفریق نمایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دوست تبدیل ہوسکتے ہیں لیکن جغرافیہ کبھی بھی تبدیل نہیں کیا جاسکتا،پاکستان کااپنا انٹرسٹ کوئی نہیں بلکہ کبھی امریکا تو کبھی سعودی عرب کےانٹرسٹ کی پیروی کی جاتی ہے۔پاکستان یا کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی اس کے اندرونی حالات کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہے،
پاکستان کی خارجہ پالیسی جب تک ایک عام انسان کے مفاد کیلئے نہیں بنے گی موثر نہیں ہوسکتی اور یہ ذمہ داری پارلیمنٹ کی ہوتی ہے کہ وہ اس کا تعین کرے ، پھر پارلیمنٹ کے ذریعے معاملہ کیبنٹ تک جاتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ مسلمانیت کا تقاضہ یہ نہیں کہ لانگ مارچ کرنے والے اور بلوچوں کو چھوڑ دیا جائے ، یہ لوگ اپنے احتجاج کے ذریعے بتانا چاہ رہے ہیں کہ وہ اور ان کی آئندہ نسل جنگ زدہ
ماحول میں جنم لے رہی ہے ، لیڈر شپ کا کام ہوتا ہے سامنا کرے نہ یہ کہ وہ کسی کی پیروی کرے، پاکستان ایک ہم ترین مذہبی ملک ہے وہ مذہب کو نہیں چھوڑ سکتا لیکن دوسرے ممالک کے مذہبی ،فروعی او ر لسانی معاملات میں اپنے قومی مفادات کو مقدم رکھنا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ضیاء الحق دور کے غلط فیصلوں مجاہدین کو ٹریننگ دینا یا افغان وار میں کردار ادا کرنے کے پیچھے امریکا تھا،
کیا ہم اب بھی امریکا کا رونا روتے رہیں گا یا دیکھیں گے کس نے ان فیصلوں کوملک کے اند ر نافذ کرایا، حنا بانی کھر کا کہنا تھا کہ ماضی میں ہونے والے پراکسی وار کے فیصلوں سے ملکی کی سالمیت اور ریاست کمزور ہوئی ہے، بھارت بھی اس وقت ایک شدت پسند ہندوتوا کے طور پر ابھر رہا ہے تو پاکستان کو اس کی پیروی کرنے کی ضرورت نہیں ہے، جب پاکستان نے غلط فیصلے کئے
تو بھارت نے پاکستان کی پیروی نہیں کی، پاکستان کو چاہئے کہ وہ افغانستان کے ساتھ دل و دماغ کے ساتھ ان کی سا لمیت کو محفوظ بننانے کیلئے فیصلے کرے، ہمیں ان کے دلوں میں پاکستان کیلئے احترام کا عنصر پید ا کرنا ہوگا، پاکستان کو یہ بھی چاہئے کہ وہ ایران کو بحیثیت مسلم ملک دیکھے اور حالات بہتر کرنےکی بھی کوشش کرے، ہم چین کی مثالیں دیتے ہیں لیکن ہمیں چین سے سیکھنا چاہئے
کہ چین نے گزشتہ برسوں میں کس طرح اپنے اندرونی معاملات کو بہتر کیا، پاکستان کو دوسروں کے سامنے بھکار یوں والا کردار ادا نہیں کرنا چاہئے، ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں ہر ملک دوسرے ملک کیخلاف عزائم رکھتا ہے۔ ایل او سی اور ورکنگ بائونڈری پر بھارتی اشتعال انگیزی اور پاک بھارت جھڑپوں پر حنا ربانی کھر نے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ
اگر وہ وزیر خارجہ ہوتیں تو بھارت سے بارڈر پر فائرنگ اور سفارتکاروں کے تحفظ کیلئے موثر سفارتکاری کے عمل کو فروغ دینے کی کوشش کرتیں کیونکہ بارڈر پر ہونے والی کشیدگی سے ایک محاذ کھل جاتا ہے، ہمارے دور میں بھی بھارت کی جانب سے شیلنگ کی گئی لیکن ہم نے جواب میں یہ نہیں کہا کہ ہم بھی شیلنگ کریں گے، پاکستان کو چاہئے کہ بھارت کے جواب میں اپنا مثبت رویہ
دنیا کے سامنے پیش کرے۔ افغانستان کے حوالے سے سابق خاتون وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو چاہئے کہ افغانستان میں حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں اپنا مثبت رول ادا کرے، افغانیوں میں اس وقت ہمارے لئے شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے حنا ربانی کھر نے کہا کہ اس وقت امریکا میں انتظامی طور پر گڑ بڑ پائی جاتی ہے، امریکا اپنا لیڈر شپ رول خود ہی تباہ کر رہا ہے،
پاکستان کو ضرورت ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ تعلقات بنانے کے بجائے ان کو مشغول کرنے کی کوشش کرے، پاکستان کو چالاکی کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ بھارت اور امریکاکے تعلقات مستحکم ہیں اور ہمارے چین کے ساتھ مستحکم ہیں،پاکستان کیلئے بہتر یہ ہے کہ وہ خطے کے تمام ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرے، امریکا افغانستا ن کی جنگ میں 45بلین ڈالر ز ہر سال خرچ کررہا ہے
وہ اپنی مرضی سے نہیں کر رہا جبکہ امریکا اس کا ملبہ بھی پاکستان پر ہی ڈالتا ہے،پاکستان کا امریکا سے تعلقات افغانستان کے ذریعے مینیج ہورہے ہیں، وزیر اعظم کی امریکا میں چیکنگ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم پاکستان کے وزیرا عظم ہیں چاہے وہ آفیشل دورے پر جائیں یا نجی دورے پر امریکا کو اطلاع دی جائے تو وہاں سے پروٹوکول میں کمی نہیں کی جاتی، یہاں سے غلطی یہ ہوئی کہ
انہیں آگاہ نہیں کیا گیا۔ سی پیک کے حوالے سے سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ چین سے پاکستان کے تعلقات چار دہائیوں سے بہت مضبوط اور مشترک ہیں، چین بھی خطے میں امن ، تجارت اور پاکستان بھی یہ ہی چاہتا ہے، تجارت کی اعلیٰ مثال سی پیک ہے جس منصوبے کا آغاز آصف زرداری نے کیا،موجود ہ حکومت کے سی پیک معاملات میں سقم پایا جاتا ہے ، پاکستان کی خارجہ پالیسی کہاں بنتی ہے؟
سلیم صافی کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ اس ملک میں کون ایسا ہےجسے 30سال کی ٹریننگ ملی ہو کہ سفارتی تعلقات کس طرح آگے بڑھائے جاتے ہیں، آپس میں تعلقات کس طرح مستحکم کئے جاتے ہیں، تعلقات میں کو ئی ایشو سامنے آئے تو اس کو حل کیسے کرنا ہوتاہے، یہ کام صرف دفتر خارجہ کے لوگ ہی موثر انداز میں کرتے ہیں جبکہ باقی لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ
جنگیں کس طرح لڑنی ہیں، کس طرح عدلیہ میں فیصلے دینے ہیں، پاکستان کے مفاد کو موثر انداز میں آگے بڑھانے کا کام پارلیمانی لیڈران ہی کرسکتے ہیں اور یہ ا اختیار انہی کے پاس ہے کہ وہ ملک اور عام آدمی کے مفادات کی بات کرسکیں،یہ کہنا درست نہیں کہ سول حکومت کا کوئی رول نہیں ہوتا لیکن اگر حکومت خو جگہ چھوڑتی ہے تو وہ جگہ کوئی نہ کوئی بھرتا ہے، پاکستان کے وزیرخارجہ کا
رول وزیر خارجہ کا ہونا چاہئے اگر وہ سیاست درمیان میں لائے گا اور سیالکوٹ کے لوگوں کو بھی مطمئن کرنے کی کوشش کرے گاتو اس سے پاکستان کو نقصان ہوگا، اگر معلومات کو وقت سے پہلے لیک کیا جائے گا تو اس کا منفی اثر بھی ضرورمرتب ہوتا ہے۔ پاکستان کو بلیک لسٹ کئے جانے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کے جب بڑے ممالک یہ مان رہے ہیں کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں جانا چاہئے تو یہ ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے۔