اسلام آباد،کابل(آئی این پی)پاکستان اور افغانستان کے مشترکہ ورکنگ گروپس کا پہلا اجلاس (آج ) اتوار کو کابل میں ہوگا جس میںشرکت کیلئے پاکستانی وفد سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کی سربراہی میں کابل پہنچ گیا،اسلام آباد نے کابل کے ساتھ پانچ مشترکہ ورکنگ گروپ تجویز کیے تھے جن کا مقصد انسداد دہشت گردی، خفیہ معلومات کے تبادلے، فوجی، معاشی، اقتصادی، تجارتی، راہداری روابط، پناہ گزینوں کی واپسی اور باہمی روابط پر توجہ دینا ہے۔امریکی میڈیا کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے مشترکہ ورکنگ گروپس کا پہلا اجلاس (آج ) اتوار کو کابل میں ہوگا ۔
پاکستانی وفد کی سربراہی سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کررہی ہیں، وفد میں اعلی عسکری اور سول حکام بھی شامل ہیں۔ کابل میں سیکیورٹی تعاون، انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ اور باہمی تجارت پر گفتگو سمیت مشترکہ ورکنگ گروپس کا اجلاس ہوگا، جہاں پاک-افغان حکام دو طرفہ مسائل پر براہ راست بات چیت کریں گے۔مشترکہ ورکنگ گروپس بنانے کا فیصلہ وزیراعظم پاکستان اور افغان صدر کے درمیان ملاقات میں طے پایا تھا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا ہے کہ پاکستان اس موقف پر قائم رہا ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام کا حصول فوجی طریقے سے ممکن نہیں اور اسے یقینی بنانے کے لیے افغاںوں کی شمولیت اور زیر قیادت امن عمل ہی واحد راستہ ہے۔ اجلاس ایک ایسے وقت ہونے جا رہا ہے جب افغانستان کی طرف سے اپنے ہاں ہونے والے حالیہ دہشت گرد واقعات میں پاکستان کی طرف انگشت نمائی کی جا رہی ہے اور جمعہ کو ہی افغان صدر اشرف غنی نے قوم سے اپنے خطاب میں الزام عائد کیا تھا کہ “پاکستان طالبان کا مرکز ہے” اور عسکریت پسندوں سمیت دیگر دہشت گرد گروپوں کے خاتمے کے لیے عملی اور واضح اقدام کرنا ہوں گے۔انھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ طالبان عسکریت پسند پاکستان کو اپنے ایک ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔پاکستان ایسے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتا آیا ہے کہ وہ افغانستان میں قیام امن اور اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے عزم پر قائم ہے۔
افغان صدر کا کہنا تھا کہ شورش پسندوں اور ان کے نیٹ ورک سے متعلق معلومات کا پاکستان سے تبادلہ کیا جا چکا ہے اور ان کے بقول پاکستان “کھوکھلے وعدے کرنے کی بجائے ان کے خلاف ٹھوس اور واضح کارروائیاں کرے۔رواں ہفتے ہی افغان انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ اور وزیر داخلہ نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔پاکستان نے طالبان یا حقانی نیٹ ورک کی طرف سے افغانستان کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کے الزامات کو بھی رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے ہاں تمام دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائیاں کرتا چلا آ رہا ہے۔