اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)نجی ٹی وی دنیا نیوز کی رپورٹ کے مطابق 20سالہ شاہ زیب کے قتل کا واقع 5سال قبل 25دسمبر 2012کو پیش آیا جب مقتول نے طاقت کے نشے میں چورشاہ رخ جتوئی اور اس کے دوستوں کو اپنی بہن کو چھیڑنے سے منع کیا، بات تلخ کلامی تک پہنچی اور ملزم نے فائرنگ کر کے شاہ زیب کو قتل کر دیا، اس کے بعد شاہ رخ جتوئی دبئی فرار ہو گیا۔ کیس میں پولیس تفتیش
سست روی کا شکار رہی، سول سوسائٹی اور میڈیا نے اس کیس کوزندہ رکھااور یوں شاہ زیب کیلئے انصاف کا مطالبہ شدت اختیار کر گیا بالآخر پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ازخود نوٹس کے بعد یہ مقدمہ انسداد دہشتگردی کی عدالت میں چلا، اِس میں اُس وقت ڈرامائی موڑ آیاجب مقتول کے والد کی جانب سے صلح کی خبریں گردش کرنے لگیں اور دیت میں شاہ زیب کے والد کو ڈیفنس کراچی میں پانچ سو گز کا بنگلہ ، آسٹریلیا میں فلیٹ اور 27کروڑ روپے ادا کرنے کی بات کی گئی، 7جون 2013کو قتل کا جرم ثابت ہونے پر شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو انسداد دہشتگردی کی عدالت نے سزائے موت اور پانچ پانچ لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی جبکہ ملزم سجاد علی تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کو عمر قید کی سزا ملی، عدالت سے سزائے موت سنائے جانے کے چند ماہ بعد شاہ زیب کے والدین نے معافی نامہ جاری کیا جس کو سندھ ہائیکورٹ نے منظور کیااور رواں سال 28نومبر میں سندھ ہائیکورٹ نے شاہ رخ جتوئی کی سزائے موت کالعدم قرار دے دی اور یوں شاہ رخ جتوئی کو رہائی مل گئی، اس واقعہ کے بعد انسانی حقوق کے کارکن جبران ناصراور کراچی کے دیگر شہریوں نے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جسے سپریم کورٹ نے ازخودنوٹس کیس میں بدل دیا، درخواست گزار کا سپریم کورٹ
میں سماعت کے آغاز میں یہ موقف تھا کہ انسداد دہشتگردی کی عدالت نے واقعہ کو دہشتگردی قرار دیا تھا جبکہ سندھ ہائیکورٹ نے اس کے خلاف فیصلہ سنایا اور واقعہ کو محض ذاتی جھگڑا قرار دیا، یہ ذاتی اور عام جھگڑا نہیں تھا، اس واقعہ سے سوسائٹی میں خوف پھیل گیا، شاہ رخ جتوئی کے وکیل لطیف کھوسہ کا موقف تھا کہ فریقین کے درمیان صلح ہو چکی لہٰذا مزید سماعت کی ضرورت نہیں رہی۔