سائنسی ریسرچ کے بعد حقائق کے انکشافات سے پہلے زلزلے کے بارے میں عجیب وغریب روایات مروج تھیں ، مثلاً عیسائی پادریوں کا خیال تھا کہ زلزلے خدا کے باغی اور گنہگار انسانوں کے لئے اجتماعی سزا اور تنبیہ ہوتے ہیں بعض قدیم اقوام سمجھتی تھیں مافوق الفطرت قوتوں کے مالک دیوہیکل درندے جو زمین کے اندر رہتے ہیں، زلزلے پیدا کرتے ہیں ۔قدیم جاپانیوں کا عقیدہ تھا کہ
ایک طویلِ القامت چھپکلی زمین کو اپنی پشت پر اُٹھائے ہوئے ہے اور اس کے ہلنے سے زلزلے آتے ہیں۔کچھ ایسا ہی عقیدہ امریکی ریڈ انڈینز کا بھی تھا کہ زمین ایک بہت بڑے کچھوے کی پیٹھ پر دھری ہے اور کچھوے کے حرکت کرنے سے زلزلے آتے ہیں ۔سائیبیریا کے قدیم باشندے زلزلے کی ذمّہ داری ایک قوی البحثّہ برفانی کتے کے سر تھوپتے ہیں، جو ان کے بقول جب اپنے بالوں سے برف جھاڑنے کے لئے جسم کو جھٹکے دیتا ہے تو زمین لرزنے لگتی ہے ۔ہندوئوں کا عقیدہ ہے کہ زمین ایک گائے کے سینگوں پر رکھی ہوئی ہے، جب وہ سینگ تبدیل کرتی ہے تو زلزلے آتے ہیں۔ قدیم یونانی فلسفی اور ریاضی داں فیثا غورث کا خیال تھا کہ جب زمین کے اندر مُردے آپس میں لڑتے ہیں تو زلزلے آتے ہیں۔ اس کے برعکس ارسطو کی توجیہہ کسی حد تک سائنسی معلوم ہوتی ہے، وہ کہتا ہے کہ جب زمین کے اندر گرم ہوا باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے تو زلزلے پیدا ہوتے ہیں۔ افلاطون کا نظریہ بھی کچھ اسی قسم کا تھا کہ زیرِ زمین تیز و تند ہوائیں زلزلوں کو جنم دیتی ہیں۔ تقریباً 70 سال پہلے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ زمین ٹھنڈی ہورہی ہے اور اس عمل کے نتیجے میں اس کا غلاف کہیں کہیں چٹخ جاتا ہے، جس سے زلزلے آتے ہیں۔ کچھ دوسرے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ زمین کے اندرونی حصّے میں آگ کا جہنم دہک رہا ہے اور اس بے پناہ حرارت کی وجہ سے زمین غبارے کی
طرح پھیلتی ہے۔ لیکن آج کا سب سے مقبول نظریہ’’پلیٹ ٹیکٹونکس‘‘کا ہے جس کی معقولیت کو دنیا بھر کے جیولوجی اور سیسمولوجی کے ماہرین نے تسلیم کرلیا ہے۔(سید شہزاد ناصر:اردومحفل)دنیا کی تاریخ حادثات اور قدرتی آفات سے بھری پُری ہے، بعض حادثات وآفات نے تو انسانی آبادی کے بڑے حصے کو چشم زدن میں صفحہٴ ہستی سے مٹا کر رکھ دیا، آفات کئی طرح کی ہوتی ہیں،
مثلا سیلاب، طوفان، وبائی امراض؛لیکن انسانی زندگی پر زلزلے کے اثرات دیگر قدرتی آفات کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرناک اور دیر پا ہوتے ہیں، زلزلوں کی ہلاکت خیزی جنگوں اور وبائی امراض سے کہیں زیادہ ہے، نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ زلزلے سے زندہ بچ جانے والے افراد پر برسوں شدید حزن وملال، پژمردگی، خوف اور ڈراوٴ نے خواب مسلط رہتے ہیں، ویکی پیڈیا آزاد دائرة المعارف
کے مطابق ایک اندازہ لگایا گیا ہے کہ اب تک آنے والے زلزلے آٹھ کروڑ انسانوں کو ہلاک کرچکے ہیں اور مالی نقصانات کا شاید کوئی حساب ہی نہیں کیا جاسکتا، در حقیقت یہ زلزلے اللہ تعالیٰ کی آیات وعلامات میں سے ہیں ۔قرآن کریم میں قوم شعیب پر عذاب آنے کا تذکرہ ہے اور اُس کی وجہ قرآن نے ناپ تول میں کمی بیشی بتائی ہے کہ ان کی عادت بن گئی تھی کہ لینے کا وقت آتا تو زیادہ لیتے
اور دینے کا وقت آتا تو کمی کردیتے تھے، مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ ناپ تول میں کمی صرف محسوسات میں نہیں ہوتی ہے؛ بلکہ معنوی چیزوں میں بھی ہوسکتی ہے مثلا لوگوں کے حقوق کی پامالی، ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ میں اپنا پورا حق سمیٹ لوں اور جب دینے کا وقت آئے تو مجھے پورا نہ دینا پڑے، اگر قوم شعیب پر ناپ تول میں کمی کی وجہ سے عذاب اور زلزلہ آسکتا ہے تو آج حقوق اللہ
اور حقوق العباد میں کمی بیشی کی وجہ سے زلزلہ آگیا تو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔فَأَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُواْ فِیْ دَارِہِمْ جَاثِمِیْن(الاعراف:۹۱)اسی طرح حضرت موسی کی قوم پر عذاب آیا، حیلے حوالے اور کٹ حجتی کی وجہ سے فَلَمَّا أخذتہم الرجفةُ (پس جب ان کو زلزلے نے آدبوچا اللہ نے ان کو وہیں ہلاک کردیا) (الاعراف:۱۵۵)قارون جو مالداری میں ضرب المثل تھا، جب اُس سے کہا گیا کہ ان
خزانوں پر ا للہ کا شکر ادا کرو تو کہنے لگا، یہ سب میرے زورِ بازو کا کرشمہ ہے؛ چناں چہ اللہ نے اسے اِس ناشکری کی وجہ سے خزانہ سمیت زمین میں دھنسا دیا۔فَخَسَفْنَا بِہِ وَبِدَارِہِ الْأَرْض (القصص: ۸۱)آج اپنے معاشرے کا جائزہ لیجیے کتنے شرعی احکام میں قیل وقال کرنے والے ملیں گے اور کتنے ہی ایسے ملیں گے جن کے احساسات وجذبات قارون کی طرح ہیں۔یہاں سنن ترمذی کی
ایک حدیث نقل کی جارہی ہے جس سے زلزلہ کے اسباب کا سمجھنا آسان ہوجاتا ہے، حضرت ابو ہریرہؓ راوی ہیں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (جب مندرجہ ذیل باتیں دنیا میں پائی جانے لگیں) تو اس زمانہ میں سرخ آندھیوں اور زلزلوں کا انتظار کرو، زمین میں دھنس جانے اور صورتیں مسخ ہوجانے اور آسمان سے پتھر برسنے کے بھی منتظر رہو اور ان عذابوں کے ساتھ دوسری
ان نشانیوں کا بھی انتظار کرو جو پے در پے اس طرح ظاہر ہوں گی، جیسے کسی لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور لگاتار اس کے دانے گرنے لگیں (وہ باتیں یہ ہیں )۱- جب مالِ غنیمت کو گھر کی دولت سمجھا جانے لگے۔ ۲- امانت دبالی جائے۔۳- زکاة کو تاوان اور بوجھ سمجھا جانے لگے۔۴- علم دین دنیا کے لیے حاصل کیا جائے۔۵- انسان اپنی بیوی کی اطاعت کرے اور ماں کی نافرمانی کرے۔۶-
دوست کو قریب کرے اور اپنے باپ کو دور کرے۔ ۷- مسجدوں میں شور وغل ہونے لگے۔۸- قوم کی قیادت، فاسق وفاجر کرنے لگیں۔ ۹- انسان کی عزت اِس لیے کی جائے؛ تاکہ وہ شرارت نہ کرے۔۱۰-گانے بجانے کے سامان کی کثرت ہوجائے۔۱۱- شباب وشراب کی مستیاں لوٹی جانے لگیں۔۱۲-بعد میں پیدا ہونے والے،امت کے پچھلے لوگوں پر لعنت کرنے لگیں۔ (سنن الترمذی، رقم: ۲۱۱، ما جاء فی علامة حلول المسخ)
انصاف کے ساتھ موجودہ ماحول کا جائزہ لیجیے، مذکورہ باتوں میں سے کون سی بات ہے، جو اب تک نہیں پائی گئی ہے، مذکورہ ساری پیشین گوئیاں حرف بہ حرف پوری ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں،دھوکہ، بے ایمانی، کرپشن، سرکاری وعوامی چیزوں میں ناجائز تصرفات عام ہیں، مسلمانوں کے مالیہ کا نظام بد سے بدتر ہے، عصری تعلیم کا شور اتنا طاقت ور ہے کہ دینی درس گاہوں کے طلبہٴ کرام،
مدرسے کی چہار دیواری میں رہتے ہوئے دینی تعلیم سے بے فکر ہو کر، عصری علوم کے حصول کے لیے کوشاں ہیں، والدین کی نافرمانی کے واقعات اب پرانے ہوگئے ہیں، بیوی کی اندھی محبت نے کتنے بنے بنائے گھر اجاڑ دیے، مساجد کا پرسکون اور قدسی ماحول پراگندہ ہوچکا ہے، عہدے اور مناصب اور قیادت وسیادت نا اہل کے ہاتھوں میں برسوں سے ہے، گانا، میوزک، فلم اور اِس طرح کی
چیزوں کا بازار اتنا گرم ہے کہ الامان والحفیظ، اِس حوالے سے کچھ کسرباقی رہ گئی تھی، موبائل اور انٹر نیٹ کے منفی استعمال نے پوری کردی، ام الخبائث شراب کا شوق جہاں غیروں کو ہے، وہیں اپنے بھی اب پیچھے نہیں رہے، اور مرحوم علماء، صلحاء، اتقیا اورنیک لوگوں پر کیچڑ اچھالنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے، اور یہ ساری باتیں آج سے نہیں بہت پہلے سے ہیں، اللہ کے نبی نے چودہ سو سال
پہلے ہی اِس کی اطلاع دی تھی، جہا ں یہ ارشاد ایک طرف اسلام کی حقانیت کی واضح دلیل ہے، وہیں دوسری طرف زلزلوں کی آمد کی وجوہات سمجھنے میں معین ومدد گاربھی ہے اور یہ وہی ماحول ہے ، جس کے بارے میں حضرت عائشہ نے ارشاد فرمایا تھا: جب لوگ زنا کو حلال کرلیں، شراب پینے لگیں اور گانے بجانے کا مشغلہ اپنا لیں تو اللہ کی غیرت جوش میں آتی ہے اور زمین
کو حکم ہوتا ہے کہ وہ زلزلہ برپا کردے۔۲۰ھ میں حضرت عمرؓکے زمانے میں بھی زلزلہ آیا، انھوں نے زمین پر ایڑی ماری اور فرمایا: اے زمین تو کیوں ہلتی ہے، کیا عمر نے تیرے اوپر عدل قائم نہیں کیا؟ اور زمین کا زلزلہ رک گیا۔۵۹ھ میں ایک زلزلہ آیا جو ۴۰ دنوں تک رہا، کئی شہر صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ ۲۲۳ھ میں شہر غرناطہ میں زلزلہ آیا اور پورا شہر تباہ وبرباد ہوگیا۔۲۴۱ھ میں
وامغان میں زلزلہ آیا، جس میں تقریبا پچیس ہزار لوگ جاں بحق ہوگئے۔(تفصیل کے لیے دیکھیے، زلزلہ مشاہدات وواقعات،ص:۱۰)نیپال میں آئے شدید زلزلے کے بعد ایک بار پھر یہ سوال ہر ایک کے ذہن میں آرہا ہے کہ یہ زلزلے کیوں آتے ہیں؟ زلزلے کے بارے میں لوگوں میں عجیب وغریب آرا پائی جاتی ہیں، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مافوق الفطرت قوتوں کے مالک دیو ہیکل درندے
جو زمین کے اندر رہتے ہیں وہ زلزلے پیدا کرتے ہیں، ہندوٴں کا عقیدہ ہے کہ زمین ایک گائے کے سینگوں پر رکھی ہوئی ہے، جب و ہ سینگ تبدیل کرتی ہے تو زلزلے آتے ہیں، ( اس طرح کی بات ایک موضوع حدیث میں بھی ہے)کچھ لوگ کہتے ہیں کہ زمین ایک بڑے کچھوے کی پیٹھ پر ہے، وہ جب حرکت کرتا ہے تو زلزلے آتے ہیں،یہ سب غیر اسلامی نظریات ہیں، سائنس داں حضرات کے
نظریات میں اختلاف ہے ، کچھ کا کہنا ہے کہ زمین کے اندر گرم ہوا باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے تو زلزلے پیدا ہوتے ہیں، اور کچھ کہتے ہیں کہ زمین ٹھنڈی ہورہی ہے اور اِس عمل کے نتیجے میں اس کا غلاف کہیں کہیں چٹخ جاتا ہے جس سے زلزلے آتے ہیں، کچھ سائنس داں حضرات کا دعوی ہے کہ زمین کے اندرونی حصے میں آگ کا جہنم دہک رہا ہے اور اس بے پناہ حرارت کی وجہ سے
زمین غبارے کی طرح پھیلتی ہے؛ لیکن اِس وقت سب سے مقبول نظریہ ”پلیٹ ٹیکٹوٹس“ کا ہے، جس کی معقولیت کو تمام غیر مسلم ماہرین نے تسلم کرلیا ہے کہ جب زمین کی پلیٹ جو تہہ در تہہ مٹی، پتھر اور چٹانوں پر مشتمل ہوتی ہے، کسی ارضیاتی دباوٴ کا شکار ہور کر ٹوٹتی یا اپنی جگہ چھوڑتی ہے تو سطح زمین پر زلزلے کی لہریں پیدا ہوتی ہیں، یہ لہریں نظر تو نہیں آتیں؛ لیکن اِن کی وجہ
سے سطح زمین پر موجود ہرچیز ڈولنے لگتی ہے۔لیکن اِس کے بر خلاف اِسلامی نقطہٴ نظر سے دیکھا جائے تویہ بات واضح ہے کہ زلزلے کا بنیادی سبب انسان کا بد اعمالیوں پر اصرار ہے، اور اِس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے زبردست آزمائش ہے، ہمیں یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ تمھارا رب تم سے ناراض ہے، تم نیکیوں کی جانب متوجہ ہوجاوٴ،اور مامورات کا امتثال اور منہیات سے اجتناب اپنا
شیوہ بنالو۔لہٰذا اِس موقع پر ہمیں وہی کام کرنا چاہیے جو اِس موقع پر اسلام ہم سے چاہتا ہے؛ چناں چہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: جہاں زلزلہ آتا ہے اگر وہاں کے لوگ توبہ کرلیں اور بد اعمالیوں سے باز آجائیں تو ان کے حق میں بہتر ہے، ورنہ ان کے لیے ہلاکت ہے۔ (الجواب الکافی لابن القیم،ص:۴۷)ابن قیم نے اپنی کتاب میں حضرت عمر بن عبد ا لعزیز کا ایک خط نقل کیا ہے، جو زلزلے کے موقع سے
انھوں نے حکومت کے لوگوں کو لکھا تھا کہ اگر زلزلہ پیش آئے تو جان لو یہ زلزلے کے جھٹکے سزا کے طور پر آتے ہیں؛ لہٰذا تم صدقہ وخیرات کرتے رہا کرو۔ (الجواف الکافی،ص:۴۷)اِس موقع پر نماز بھی پڑھ سکتے ہیں:علامہ کاسانی نے یہ اصول قائم کیا ہے کہ ہر گھبراہٹ کے موقع پر نماز پڑھنی چاہیے، زلزلہ بھی ان مواقع میں سے ہے؛ لہٰذا تنہا تنہا مسلمانوں کو نماز ادا کرنی چاہیے
اور تضرع کے ساتھ دعائیں کرنی چاہیے اور یہ نماز دو رکعت عام نمازوں کی طرح ہوگی؛ البتہ مکروہ وقت میں نہ پڑھی جائے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ انھوں نے بصرہ میں زلزلہ کی بنا پر نماز پڑھی ہے۔ (بدائع الصنائع ۱/۲۸۲)یہ دعائیں بھی پڑھ سکتے ہیں:زلزلے کے موقع پر مذکورہ دعاوٴں کا ورد رکھنا چاہیے، حضرت عمر بن عبد العزیز نے اِس موقع پر لوگوں کو تین دعاوٴں کے اہتمام کی تاکید کی تھی،
یہ تینوں دعائیں، قرآنی دعائیں ہیں؛ اِس لیے اِن کی اہمیت اور تاثیر کا انکار نہیں کیا جاسکتا:۱- حضرت آدم کی دعا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْن (الاعراف:۲۳)۲- حضرت نوح کی دعا وَإِلاَّ تَغْفِرْ لِیْ وَتَرْحَمْنِیْ أَکُن مِّنَ الْخَاسِرِیْنَ (ہود:۴۷)۳- حضرت یونس کی دعا لَّا إِلَہَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَکَ إِنِّیْ کُنتُ مِنَ الظَّالِمِیْن (انبیاء:۸۷)(الجواب الکافی،ص:۴۷)الغرض زلزلوں
کے تعلق سے اسلام میں مکمل رہنمائی موجود ہے اور مشترکہ طور سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ زلزلے صرف زیر زمین پلیٹوں کے ملنے یا چٹانوں کے کھسکنے کی وجہ سے نہیں آتے؛ بلکہ یہ انسانوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے آتے ہیں اور یہ زلزلے انھیں بد اعمالیوں سے باز آنے کے لیے الارم اور وارننگ ہیں؛ لہٰذا یہ بندوں کے حق میں رحمت ہیں کہ اُن کو اِسی دنیا میں
اپنی اصلاح کے لیے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں؛ لیکن موجودہ سائنس کایہ مانناہے اور میڈیا چلا چلا کر اُس کے نظریات کی تشہیر کررہا ہے کہ مصائب، آفات اور زلزلوں کا ظہور کسی عبرت اور نصیحت کے لیے نہیں؛ بلکہ اِس کا تعلق تو طبعیات سے ہے اور الحاد ودہریت کے بڑھتے ہوئے دور میں انسان کی قساوتِ قلبی اِس انتہاء کو پہنچی ہوئی ہے کہ غیروں کے ساتھ ساتھ اپنے کچھ مسلمان بھائی بھی
اِسے صرف سائنس کا کرشمہ ہی سمجھتے ہیں اوراِن حالات میں جانی ومالی حفاظت کا ہی تذکرہ کرتے ہیں، توبہ واستغفار اور انابتِ الی اللہ کو ضروری نہیں سمجھتے۔مولانا پیر فقیرذوالفقار صاحب نقشبندی لکھتے ہیں:سائنس زلزلے کا مرکز، زلزلے کی شدت اور گہرائی تو بتاسکتی ہے؛ لیکن کب آئے گا؟ اور کہاں کہاں کتنی تباہی پھیلائے کا، اِس بارے میں باوجود اتنی ریسرچ کے سائنس گنگ ہوجاتی ہے
قُلْ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِندَ اللَّہِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْن (الملک:۲۶) کہہ دو کہ اِس کا علم تو فقط اللہ ہی کے پاس ہے میں تو صرف ڈرانے والا ہوں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زمین کے کس حصے میں پلیٹیں ہلتی ہیں؟ اور کب ہلتی ہیں؟ یہ پلیٹیں روز روز کیوں نہیں ہلتیں، کیا اندھا قانون ہے جو اِنکو ہلاتا ہے؟ اِن سوالوں کا جواب ہمیں شریعت دیتی ہے شریعت یہ کہتی ہے کہ طبعی اسباب اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت ہیں،
اللہ تعالیٰ بندوں سے خوش ہوں تو اسباب بندے کے موافق ہوجاتے ہیں، بسا اوقات کسی جگہ کے لوگوں کے اعمال خراب ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کو وہ ناراض کرلیتے ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کی تنبیہ کے لیے زمین کو حکم دیتے ہیں کہ تھوڑا ان کو جھٹکا دے تو زمین جھٹکا دیتی ہے، یا سائنس کی زبان میں یوں کہنا چاہیے کہ جب اللہ تعالیٰ بندوں سے خوش ہوتے ہیں تو جغرافیائی اور ماحولیاتی
پیرامیٹرز کو بندوں کے موافق بنادیتے ہیں اور جب ناراض ہوتے ہیں تو پیرا میٹرز میں ایسی تبدیلی آتی ہے کہ لوگ آفات میں جکڑے جاتے ہیں۔وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُہْلِکَ الْقُرَی بِظُلْمٍ وَأَہْلُہَا مُصْلِحُون (ھود: ۱۱۷)اور آپ کا رب ایسا نہیں ہے کہ ہلاک کردے کسی بستی کو اور بستی والے نیک کام کرنے والے ہوں۔ (زلزلہ․․مشاہدات وواقعات،ص:۱۵)مولانا محمدیوسف صاحب لدھیانوی لکھتے ہیں:زلزلہ کے کچھ اسباب بھی ہیں،
جن کو طبقات ارض کے ماہرین بیان کرتے ہیں؛ مگر ان اسباب کو مہیاکرنے والا ارادہٴ خداوندی ہے اور بعض دفعہ طبعی اسباب کے بغیر بھی زلزلہ آتا ہے، بہر حال ان زلزلوں سے ا یک مسلمان کو عبرت حاصل کرنی چاہیے اور دعا واستغفار، صدقہ وخیرات اور ترکِ معاصی کا اہتمام کرنا چاہیے۔ (آپ کے مسائل، ۱/۳۸۶)لہٰذا اِس وقت جب کہ پوری دنیا زلزلے کے ا ثرات کو محسوس کررہی ہے،
ہم تمام مسلمان بھائیوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنے ناواقف اور دین سے برگشتہ مسلم نوجوان کا ذہن صاف کریں،شکوک وشبہات مٹائیں، اِس کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بھائیوں کے سامنے زلزلے کے حوالے سے اسلامی تعلیمات وہدایات اور قرآنی ارشادات وفرمودات پُر زور انداز میں پیش کریں اور اسلام وسائنس کا تقابلی جائزہ پیش کرکے معیارِ حق کو ثابت کرنے کی کوشش کریں،
کیا پتہ کچھ بے راہ رو، راہِ راست پر آجائیں، ہر شر میں خیر کا پہلو بھی ہوتا ہے،اور ہر تخریب، تعمیر کا پیش خیمہ ہوتی ہے، اللہ ہمیں حوصلہ دے!آمین۔(ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ9 ، جلد: 99 ، ذی قعدہ 1436 ہجری مطابق ستمبر 2015ء:از: محمد تبریز عالم قاسمی، استاذ دارالعلوم حیدرآباد)