قصور (مانیٹرنگ ڈیسک)ایمان فاطمہ کے والدنے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ مدثر کی گرفتاری کے بعد ہم ابھی احتجاج کر رہے تھے ،میرے بڑے بھائی نے مجھے کہا کہ پولیس کہہ رہی ہے کہ ملزم مدثر نے اعتراف جرم کر لیا ہے ،اب احتجاج ختم کر دیں ۔رات تین بجے کے قریب پولیس کی ایک گاڑی آئی اور مجھے لے کر پولیس اسٹیشن تھانہ صدر چلی گئی ۔ تھانے پہنچنے کے بعد پولیس کو پھر کال آئی اور پولیس ڈی ایس پی کے
دفتر تھانہ بی ڈویژن لے گئے ۔ وہاں ڈی پی او علی ناصر رضوی بیٹھا ہوا تھا ، وہ اٹھا اور میرے گلے لگتے ہوئے رو پڑا اور کہنے لگا کہ آپ کی بیٹی کا نام ایمان فاطمہ تھا اور میری بیٹی کا نام بھی ایمان فاطمہ ہے ۔ اللہ آپ کوضرور انصاف دے گا ۔تھانہ بی ڈویژن میں ہی مدثر ڈر اور سہما ہوا بیٹھا ہوا تھا ، پولیس نے مجھے اس سے ملوایا ،مدثر نے میرے سامنے میری بیٹی کو مارنے کا اعتراف کیا اور مجھ سے اللہ واسطے معافی مانگی جس پر میں خاموشی کے ساتھ باہر کی طرف نکل گیا ۔صبح پولیس والوں نے مجھے بتایا کہ ہم صبح مدثر کو جائے وقوعہ کی شناخت کے لے کرجا رہے تھے کہ اس نے بھاگنے کی کوشش کی اور پولیس کی گولی لگنے سے مارا گیا ۔واضح رہے کہ ننھی زینب کے سفاک قاتل عمران کا ڈی این اے معصوم ایمان فاطمہ سےبھی میچ کر گیا ہے جس کی وجہ سے یہ کیس مزید الجھ کر رہ گیا ہے۔