اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری نے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کی امداد روکنے کے منفی اثرات مرتب ہوں گے اور اس سے دونوں ممالک کے درمیان فاصلے بڑھیں گے۔ایک انٹرویومیں اعزاز چوہدری نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے جو قربانیاں دیں اور جو کامیابیاں حاصل کیں ان کی اگر قیمت لگانا شروع کردیا جائے تو یہ اچھی بات نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کے حالیہ بیانات اور اقدامات پر ہمیں حیرت اس لیے ہوئی کہ حال میں امریکی سیکریٹری خارجہ ریکس ٹلرسن اور وزیر دفاع جیمز میٹس نے پاکستان کے دورے کیے جن میں مشترکہ گراؤنڈ ڈھونڈنے کی بات ہوئی ٗ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس سلسلے میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے نہ کہ منفی بیانات دے کر باہمی اعتماد کو ٹھیس پہنچائی جائے۔انہوں نے کہاکہ امریکی حکام کی جانب سے تسلسل کے ساتھ پاکستان کے خلاف منفی بیانات آرہے تھے لیکن ساتھ ہی سرکاری سطح پر ہماری ان سے بات چیت بھی چل رہی ہے تاہم یہ امریکا کے فیصلے ہیں، پاکستان اور امریکا نے 70 سالوں میں کئی بار ایک ساتھ کام کیا ہے اس لیے اس کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ اب ہم اکٹھے کام نہ کریں۔اعزاز چوہدری نے کہا کہ ہر ملک کی طرح پاکستان کو بھی اپنا مفاد عزیز ہے لیکن اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ ہمیشہ تصادم کی صوتحال ہی پیدا ہو۔‘بھارت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خطے میں بڑا کردار حاصل کرنے کے لیے بھارت کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اس کا حقدار ہے ٗ ہمیں افغانستان میں بھارت کے تعمیری کردار پر کوئی اعتراض نہیں لیکن وہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امریکا کی ناکامیوں کا پاکستان کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا، افغانستان کی موجودہ صورتحال کے لیے پاکستان کو قربانی کا بکرا نہیں بنایا جاسکتا، امریکا کو 680 ارب ڈالر
خرچ کرنے کے باوجود وہاں کامیابی نہیں ملی کیونکہ افغانستان کا حل عسکری نہیں سیاسی ہوسکتا ہے جس کے لیے پاکستان مدد کرنے کو تیار ہے۔امریکی امداد سے متعلق پاکستانی سفیر نے کہا کہ امریکہ کے 33 ارب ڈالر میں سے آدھی سے زائد رقم وہ تھی جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم پہلے ہی خرچ کرچکے تھے، اس میں وہ رقم شامل نہیں ہے جو پاکستان نے امریکا کو زمینی اور فضائی راستہ دینے کے لیے خرچ کی جبکہ امداد روکنے سے دونوں ممالک ایک دوسرے سے دور ہوں گے۔